انسانی زندگی پانچ حواسوں میں
سفرکر رہی ہے۔ یہ پانچ حواس سننا، دیکھنا،
چکھنا، چھونا اور سونگھنا ہیں۔ یہ پانچ حواس قدرت نے متوازن مقداروں میں
پیدا کئے ہیں۔ انسانی جسم کے اندر سب سے زیادہ اہم اس کا
دماغ ہے۔ یہ دماغ تقریباً دو
کھرب خلیوں پرمشتمل ہے۔ ان دوکھرب خلیوں سے تمام اعصاب کا
تعلق ہے اور تمام اعصاب پران کا
اثر پڑتا ہے۔ دماغ جس طرز پرقائم ہے،
ماہرینِ
روحانیت کی ریسرچ کے مطابق وہ سب کا سب روشنی ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے،
ہم مستقل برقی رو میں گھرے ہوئے ہیں۔ یہ برقی رو دماغی خلیوں کے تصرف سے باہرآتی
ہے تو طرح طرح کے رنگوں کا
جال ہماری آنکھوں کے سامنے آتا ہے۔ روشنی کے یہی رنگ ہمارے اندر حس پیدا
کرتے ہیں۔ ہمارے ارد گرد بہت سی آوازیں پھیلی ہوئی ہیں۔ ان کے قطر بہت چھوٹے اور
بہت بڑے ہوتے ہیں۔ سائنس دانوں نے اندازہ لگایا ہے کہ بیس سائیکل فی سکینڈ کی
فریکوئنسی سے نیچے کی آوازیں آدمی نہیں سن سکتا اور اسی طرح بیس ہزار سائیکل فی
سیکنڈ کی فریکوئنسی سے زیادہ کی آوازیں بھی آدمی نہیں سن سکتا۔ البتہ بیس سائیکل
فی سیکنڈ کی فریکوئنسی سے نیچے کی آوازیں برقی رو کے ذریعے سنی جا سکتی ہیں اور
بیس ہزار سائیکل فی سکینڈ کی فریکوئنسی سے اوپر کی آوازیں بھی برقی رو کے بغیر
سننا ممکن نہیں۔
آنکھ کے پرد وں پر جوعمل ہوتا ہے، وہ خلیوں کے اندر بہنے والی رو سے بنتا ہے۔
چنانچہ بصارت میں کام آنے والی برقی رو یا روشنیوں کا بہاؤ
ظاہر حواس سے زیادہ ہو جائے یا کسی برقی آلے کی مدد سے یہ بہاؤ
معمول سے تیز کردیا جائے توغیرمرئی چیزیں نظرآنے لگتی ہیں۔ سماعت اور بصارت کی حس
میں آپس کا ایک تعلق ہے۔ جب رو
کا ہجوم کانوں کی طرف ہوتا ہے تو
ہم آوازیں سننے لگتے ہیں۔ اور جب یہ ہجوم آنکھوں کی طرف منتقل ہوتا
ہے تو ہم دیکھنے لگتے ہیں۔
روحانی سائنس ہمیں بتاتی ہے کہ آسمان اور زمین کے اندر جو کچھ ہے،
وہ سب روشنی ہے۔ کائنات کا کوئی ذرہ ایسا نہیں ہے جو روشنی کے ہالے میں بند نہ ہو۔
روشنی کی الگ الگ مقداریں ہیں۔ اور یہ الگ الگ مقداریں ہی انفرادیت پیدا کرتی ہیں۔
روشنی جب دماغ کے اوپر نزول کر
کے بکھرتی ہے تو اس میں رنگ پیدا ہوجاتے ہیں۔ رنگوں کی لہریں ہر تخلیق میں
وولٹیج کا
کام کرتی ہیں۔ کوئی انسان سنکھیا کھا
کراس لیے مر
جاتا ہے کہ سنکھیا کے اندر کام کرنے والی برقی نظام کا
وولٹیج انسان کے اندر کام کرنے والے وولٹیج سے زیادہ ہوتا
ہے۔ انسانی زندگی دو حواسوں پرمنقسم ہے۔ رات کے حواس اور دن کے حواس۔ رات کے
حواس دن کے حواس کی نسبت زیادہ ترقی یافتہ اور گہرے ہوتے ہیں۔ رات کے حواس میں
ہمارے ذہن کی رفتار بہت زیادہ ہوجاتی ہے۔ اتنی زیادہ تیز کہ فاصلے معدوم ہوجاتے
ہیں۔ یہ بات ہر فرد کے تجربے میں ہے کہ وہ خواب کے دوران ایک جگہ سے دوسری جگہ
منتقل ہونے کے لیے سفر نہیں کرتا جب کہ دن کے حواس میں فاصلے اور وقت کے اندر سفر
کرنا، انسان کی ایک مجبوری ہے۔ جو حواس زمان ومکان سے آزاد ہو کرکام کرتے ہیں،
ان کو بیداری میں متحرک کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم مراقبہ کریں۔ روحانی سانئس دان
سو
سالوں سے مراقبہ کے عمل پرکار بند ہیں۔ لیکن موجودہ دور میں جب کہ انسان کی
مصروفیت بہت بڑھ گئی ہے اور وقت کم ہو گیا ہے، طویل ریاضت کرنا ایک مشکل کام بن گیا
ہے۔ روحانی سائنس دان اس عمل پر
ریسرچ کرتے رہے ہیں کہ روشنیوں اور لہروں کی اس تھیوری کے نتیجے میں جو
حقیقت سامنے آتی ہے، اس کے مطابق ایک ایسی ڈیوائس تیارکی جائے جو کہ سالہا سال کی
ریاضت اورمجاہدے کی مدت کو کم سے کم کردے۔ اس کوشش اور تلاش میں دن رات مہینے اور
سال گزرتے رہے اور بالآخر مابعد النفسیات کے ماہرین کامیاب ہو گے۔
ہمارے ادارہ ’’
دارالعمل چشتیہ،پاکستان ‘‘ نے کئی دھاتوں اورکئی کیمیکل میں سے الیکٹریسٹی
گزار کریہ ڈیوائس تیارکروائی ہے۔
یاد رکھیں :
انسان کے اندر جب باطنی نگاہ کام کرنے لگتی ہے تو حواس کی رفتار عام رفتار
سے سترہزار گنا زیادہ ہو جاتی ہے۔ ہم نے اس ڈیوائس کانام (آلہ یکسوئی) رکھا ہے۔
طریقہ استعمال : سب کاموں سے فارغ ہونے کے بعد ہر طرف سے ذہن ہٹا کرہاتھ منہ دھوکر
یا غسل کرکے آرام دہ نشست پربیٹھ جائیں ۔ آلہ یکسوئی پیشانی پر اس طرح باندھ لیں
کہ پیشانی کے بیچ میں یعنی دونوں بھنوؤں کے درمیان ہلکا سا
دباؤ پڑتا رہے۔ آنکھیں بند کرلیں اور بند آنکھوں سے
پیشانی پرموجود آلہ یکسوئی کی طرف اپنی توجہ مبذول کریں۔
یہ عمل رات کو اور صبح بیدار ہونے کے بعد روزانہ تیس منٹ تک دہرائیں۔
نوٹ: مراقبہ شروع کرنے سے پہلے دو
روئی کے پھوئے لے کر
پانی سے بھگولیں اور پانی نچوڑ کر بہت معمولی سا کالی مرچ کا
پاؤڈر ان پھوؤں میں لگالیں
اوران کو دونوں کانوں میں رکھ لیں۔
آلہ یکسوئی کی قیمت بشمول ڈاک خرچہ اندرون ملک800روپے۔ اگر کورئیر
سے منگوانا ہو تو 950روپے۔
منگوانے کا پتہ: دارالعمل چشتیہ 586 کامران بلاک ،علامہ
اقبال ٹائون لاہور
فون: 35410586-042، 4773786-0322، 4487877-0332
کاپی رائٹ © تمام جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ دارالعمل چشتیہ، پاکستان -- 2015