یہ اللہ ﷻ کا بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے پھر ہمیں رمضان المبارک
کا مہینہ عطا فرمایا اور ایک بار پھر موقع دیا کہ اپنے گناہوں کو معاف کروائیں،
دوزخ سے نجات پائیں اور اللہﷻ کو راضی کرلیں۔
مسلسل خبروں میں کچھ ایسے واقعات سامنے آ رہے ہیں، جن سے بہت تشویش ہو رہی ہے کہ
معاشرہ کس طرف جا رہا ہے۔ ہر کوئی دوسرے پر اعتراض کرنےمیں لگا ہوا ہے۔ اپنے گریبان
میں کوئی نہیں جھانک رہا۔ جس کی وجہ سے اصلاح کا دروزاہ بند ہوتا نظر آ رہا ہے۔ جب
انسان کو اپنی کوئی برائی ہی نظرنہ آئے تو اصلاح کیوں کروائے گا؟
آج کل سب سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ لوگوں کو اپنی اصلاح کی طرف متوجہ کیا
جائے۔ صحیح اور غلط کی پہچان بتائی جائے۔ صرف اپنی اور اپنے اہل و عیال کی اصلاح کی
فکر کی جائے، جس کا قرآن میں حکم بھی ہے اور اس کے بارے میں سوال بھی کیا جائے گا۔
حالات اس حد تک بگڑ گئے ہیں کہ یہ علم ہی نہیں کہ کیا کیا کام گناہ ہیں؟ اور جن
کوعلم ہے، ان کے دل میں خوفِ خدا نہیں رہا۔ گناہ کرتے وقت ذرا بھی یہ خیال نہیں آتا
کہ یہ غلط کام ہے۔ اس سے اللہﷻ ناراض ہوں گے۔ بات تو یہاں تک بڑھ گئی ہے کہ گناہ کو
گناہ سمجھنا ہی چھوڑ دیا ہے۔ گناہ کا احساس تک نہیں ہوتا۔ جب احساسِ گناہ بھی ختم
ہو جائے تو پھر انسان اپنی تباہی کا ہی انتظار کرے کیونکہ یہ وہ حالت ہے کہ لازمی
اللہ ﷻ کا قہر نازل ہوگا۔ اللہ ﷻ کو راضی کرنے کی فکر ہی لوگوں میں نظر نہیں آتی۔
بس اپنی دنیا میں مگن ہیں۔ حلال اور حرام کی تمیز ہی نہیں۔
قتل و غارت کا بازار گرم ہے۔ چوری، ڈاکے روزانہ کا معمول ہیں۔ رشوت لینا اپنا حق
سمجھا جا رہا ہے۔ حرام کمانے کے نت نئے طریقےاپنائے جارہے ہیں اور ان کو حرام سمجھا
نہیں جا رہا۔بے دین قسم کے حکمران مسلسل کئی سالوں سے ہم پر مسلط ہیں۔ حق بات کہنا
ان کے بس میں نہیں۔
شہوت اور ہوس کا بازار گرم ہے۔ زنا کو برا نہیں سمجھا جارہا۔ جس کو موقع ملے، وہ
فائدہ اٹھانے کو تیار نظر آتا ہے۔ ایسے ایسے حیا سوز واقعات سننے کو مل رہے ہیں کہ
اللہ کی پناہ۔بیٹی باپ سے محفوظ نہیں۔ کسی عورت کی عزت سے کھیلنا معمولی بات سمجھا
جاتا ہے۔
بے پردگی اور فیشن نے معاشرے میں بے حد بگاڑ پیدا کر دیا ہے۔ نئی نسل تو کچھ سمجھنے
کو ہی تیار نظر نہیں آتی، الا ماشاء اللہ۔ بڑے بڑے دینداروں کے گھروں میں بے پردگی
عام ہے۔ دنیاداروں سے کیا شکوہ کریں۔ اور فیشن بھی ایسے ایسے کہ اللہ کی پناہ۔
دین کے احکامات کا مذاق اڑانا، ان پر اعتراض کرنا عام ہو گیا ہے۔ صحابۂ کرام رضوان
اللہ علیہم اجمعین اور اہل بیت جیسی مقدس ہستیوں کی گستاخی کھلے عام ہو رہی ہے۔
دین کے کاموں میں اللہﷻ کی رضا کی بجائے، اپنے مفادات کو ترجیح دی جا رہی ہے۔زبان
سے عشقِ نبی ﷺ کے نعرے اور قول و فعل و عمل میں آقاﷺ کی یکسر مخالفت۔
معاشرت اور معاملات میں تو ایسے آزاد ہو گئے ہیں کہ جیسے اسلام کی اس سلسلے
میں کوئی تعلیمات ہی نہیں۔ جب کہ سب احکامات موجود ہیں۔ اخلاقیات کا تو جنازہ ہی
نکل گیا ہے۔ قرآنی آیات کے اصل مفہوم کی بجائے اپنے مفاد کے مطابق سمجھا اور
سمجھایا جا رہا ہے۔
مزید اب کس بات کا انتظار ہے؟ کیا یہ سب کچھ کافی نہیں کہ عذابِ الٰہی نازل ہو؟
خدارا! اب بھی وقت ہے۔ موت کا پتہ نہیںکب آ دبوچے۔اس لئےرمضان میں اپنے گناہ
بخشوائیں، اللہ کو راضی کریں اور رمضان کے بعد ایک نئی زندگی کا آغاز کریں ۔ایسی
زندگی، جو اللہﷻ کی پسند کے مطابق ہو۔
کاپی رائٹ © تمام جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ دارالعمل چشتیہ، پاکستان -- ۲۰۱۴