اکثر آپ نے یہ دیکھا ہو گا کہ جب کسی کے ہاں’’بیٹی‘‘ کی پیدائش ہوتی ہے، تو اس وقت ایک ہی جملہ زبان زدِ عام ہوتا ہے کہ ’’ آپ کی بیٹی نصیبوں والی ہو‘‘۔
یہ دعا آپ کو ’’بیٹی‘‘ کی پیدائش پر ہی کیوں سننے کو ملتی ہے؟ کبھی آپ نے اس پر غور کیا ہے؟ بیٹی کی پیدائش کے بارے میں تو نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہے کہ ’’ وہ عورت جس کی پہلی اولاد لڑکی ہے، وہ مبارک عورت ہے‘‘۔ یہ دعا اس لئے تواتر کے ساتھ دی جاتی ہے کہ ’’بیٹیاں‘‘ پرائی ہوتی ہیں اور انہیں ایک دن اپنے ماں باپ کا گھر چھوڑ کا پیا کےگھر سدھارناہوتا ہے اور یہاں سے وہ نصیب شروع ہوتا ہے،جس کے لئے اس کی پیدائش پر دعا دی جاتی ہے کہ ’’ آپ کی بیٹی نصیبوں والی ہو‘‘۔موجودہ دور میں بیٹی کی خوشی کے لئے والدین ہر قسم کا دکھ و تکلیف برداشت کرتے ہیں۔اس کی تعلیم و تربیت کا مناسب انتظام کرتے ہیں۔ جب بیٹی جوان ہوتی ہے توسب سے پہلے اس کے لئے ایک عدد اچھا رشتہ درکار ہوتا ہے۔ کافی تگ و دو کے بعد اگر اچھا رشتہ مل جائے تو پھر والدین کو جہیز کے نام پر فرمائشوں کی ایک لمبی لسٹ تھما دی جاتی ہے۔ بعض اوقات تو یہ فرمائش بھی ساتھ لف ہوتی ہے کہ داماد کو کاروبار بھی کروا کر دیا جائے تاکہ آپ کی بیٹی بہتر زندگی گزار سکے۔ بیٹی خواہ پڑھی لکھی، صوم صلوۃ کی پابند، اچھے خاندان سے ہو، لڑکے والوں کو اس سے کوئی سرو کار نہیں ہوتا۔انہیں صرف اور صرف جہیز سے غرض ہوتی ہے۔ اگر مطلوبہ جہیز دے دیا جائے تو رشتہ طے پا جاتا ہے ورنہ بیٹی کو اس طرح رد کر دیا جاتا ہے، جیسے گاہک دکان پر رکھی ہوئی چیز پسند نہ آنے پر اگلی دکان پر چلا جاتا ہے۔جو والدین صاحبِ استطاعت ہوتے ہیں، وہ تو بیٹی کی خوشی کے لئے جہیز کے نام پر بھاری بھر کم فرمائشیں پوری کر دیتے ہیں، لیکن بیٹی کی شادی کے بعد بھی یہ فرمائشیں والدین کا پیچھا نہیں چھوڑتیں۔ جب تک والدین لڑکے والوں کی فرمائشیں پوری کرتے رہتے ہیں، بیٹی کا گھر آباد رہتا ہے۔جب پوری نہ کر سکیں تو نوبت طلاق تک پہنچنے میں دیر نہیں لگتی۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں40فیصد طلاق کے کیسز جہیز کی کمی کی وجہ سے پیش آرہے ہیںجب کہ سالانہ 6ہزار بیٹیوںکی شادی میں کوئی اور چیز رکاوٹ نہیں،صرف جہیز ہے۔اگر ہم چاہتے ہیں کہ بیٹیوں کی شادیاںبر وقت ہو ں تو ہمیں شادی کے انتظام و انصرام کو آسان بنانا ہو گا۔والدین توبیٹی کو سسرالیوں کے کہے بغیر ہی اپنی استطاعت سے کہیں زیادہ دیتے ہیں بلکہ بعض اوقات تو وہ بیچارے مقروض بھی ہو جاتے ہیں۔اس لئے لڑکے والوں کو جہیز کا مطالبہ ہی نہیں کرنا چاہئے۔ جن والدین کو اللہ تعالیٰ نے سب کچھ عطا کیا ہوا ہے،انہیں چاہئے کہ وہ اپنی بیٹیوں کی شادی پر فضول اخراجات سے اجتناب کریںتاکہ غریب والدین کے لئے دقت پیش نہ آئے بلکہ صاحبِ استطاعت والدین کو چاہئے کہ وہ اپنے اردگرد نظر دوڑائیں۔ جو غریب والدین اپنی بیٹی کی شادی کا انتظام و انصرام نہیں کر سکتے، ان کی مالی معاونت کریں تاکہ جہیز نہ ہونے کی وجہ سے ان کی بیٹیوں کے سروں میں چاندی نہ اتر آئے۔
 

 

کاپی رائٹ © تمام جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ دارالعمل چشتیہ، پاکستان  -- ۲۰۱۴



Subscribe for Updates

Name:

Email: