جسم کو کیا، رُوح کو بھی قبلہ رُو کرتے رہو
ہر قدم، ہر سانس، رب کی جستجو کرتے رہو
ہاتھ اُٹھا کرمانگ لو یا سر جھکا کر مانگ لو
جس طرح تم چاہو، خود کو سرخرو کرتے رہو
گفتگو کے اور بھی عنوان لاکھوں ہیں مگر
جب کرو، اپنے خدا کی گفتگو کرتے رہو
ذاتِ باری کی ثناء کے پھول کھلتے ہوں جہاں
تم وہاں دل کے نگر کو مشک بو کرتے رہو
سِل ہی جائیں گے خدا کے لطف سے وہ ایک دن
آنسوئوں سے اپنے زخموں کو رفو کرتے رہو
نعمتوں کا شکر تم سے کیا اَدا ہوگا مگر
شکر بے حد لازمی ہے، کُو بہ کُو کرتے رہو
مالک و مختار کے ہاں دیر ہے کس بات کی
آرزوئے دِید ہے تو آرزو کرتے رہو
گیت جو مسرورؔ گائو تو خدا کے گائو تم
ذِکر بھی اس کا کرو تو چار سو کرتے رہو
مسرور کیفیؔ
 

 

کاپی رائٹ © تمام جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ دارالعمل چشتیہ، پاکستان  -- ۲۰۱۴



Subscribe for Updates

Name:

Email: