کامیابی معیّن اہداف کے حصول کا نام ہے، چاہے وہ دینی ہوں یا دنیوی۔ ان کاانسان کی انفرادی، خاندانی یامعاشرتی، غرض زندگی کے کسی بھی شعبے سے تعلق ہو سکتا ہے، انسان جب ان اہداف کو حاصل کرلیتا ہے، تو اسے نہ صرف خوشی اور اطمینان کااحساس ہوتا ہے،بلکہ وہ محسوس کرتا ہے کہ وہ زندگی کی شاہراہ پرکافی آگے نکل گیاہے۔ خوش بختی ایک نفسیاتی اطمینان اور خوشی کی کیفیت کانام ہے، جو اللہ کے دیئے پر قناعت اور اس کی رضا پر راضی رہنے کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے۔ خوش بختی کا سربستہ راز اللہ پرایمان، بندگی کے کلّی مفہوم کی صحیح سمجھ اور اس کی عملی تطبیق میں مضمر ہے۔ بندگی کامفہوم ایک کلّی مفہوم ہے، جس میں ایک مسلمان کاہر ہر شعبہ رنگا ہوناچاہئے۔ کامیابی کاتصور اس وقت ایجابی پازیٹو(Positive )اور صحیح سمت رواں ہو گا، جب تک وہ بندگی کے تصور سے پیوستہ رہے گااور اگر یہ تصور بندگی کے تصور سے مربوط نہیں تو لازماً منفی اور غلط نتیجے تک پہنچ کر رہے گا۔

کامیاب فرد

وہ کام کی ذمہ داری اٹھاتا ہے، یعنی احساس ذمہ داری اس کی اہم خصوصیت ہوتی ہے۔

وہ مسئلے کا تفصیلی اور باریک بینی سے جائزہ لیتا ہے۔ ٭
وہ دوسرے کامیاب لوگوں کی عزت کرتا ہے اور ان سے سیکھنے کی کوشش کرتا ہے، یعنی اس میں دوسروں کو تسلیم کرنے کا حوصلہ ہوتا ہے۔وہ یہ جانتا ہے، کہ وہ کون سے معاملات ہیں، جن کے لیے لڑناچاہیے اورکون سے قابل مصالحت ہیں، یعنی وہ حکمت اورمصلحت کو پیش نظر رکھتا ہے۔ ٭
ذمہ داری کو اس سے زیادہ محسوس کرتا ہے، جتنا فرض منصبی کا تقاضا ہے۔ ٭
شکست کا اتنا خوف نہیں رکھتا جتنا ہارنے والا خوفزدہ ہوتا ہے۔ ٭
وہ جانتا ہے کہ وہ اچھا ہے، مگر اس بات کو بھی تسلیم کرتا ہے کہ اتنا اچھا نہیں جتنا ہوناچاہیے۔ ٭
پنی غلطی کااعتراف کرتا ہے اور حسب موقع معافی بھی مانگ لیتا ہے۔ ٭
عملاً دکھاتا ہے کہ وہ اس غلطی کو دور کرناچاہتا ہے۔ ٭
ناکام فرد سے زیادہ کام کرتا ہے، مگر اس کے باوجود اس کے پاس دوسرے کام کے لیے بہت وقت ہوتا ہے۔ ٭
اپنی رفتار کاتعین کرتا ہے اور جائزہ لیتا رہتا ہے، منزل سے فاصلے کو دیکھتا ہے اور اسے عبور کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ ٭
کہتا ہے :اس کام کے لیے کوئی بہتر طریقہ ہوناچاہیے، وہ خوب سے خوب تر کی تلاش میں رہتا ہے۔ ٭

ناکام فرد

وہ وعدے کرتا ہے، مگر غیرذمہ داری کے ساتھ اور عملاً انہیں نبھانہیں سکتا۔ ٭
مسئلے میں الجھا رہتا ہے اور کبھی اسے سمجھ نہیں پاتا، ہمیشہ مکڑی کے جال میں پھنسا رہتا ہے۔ ٭
کامیاب لوگوں سے جلتا ہے اور ان کی کامیابیوں میں کیڑے نکالتا ہے، شخصیت میں حسد کامادہ بھرارہتا ہے۔ ٭
وہ ان مواقع پرمصالحت کرلیتا ہے جہاں مصالحت نہیں کرنی چاہیے اور ان باتوں میں جھگڑتا ہے جو اس قابل نہیں کہ ان پر جھگڑا کیا جائے، عمومی طور پر جلد باز ہوتا ہے۔ ٭
کہتا ہے، کہ یہاں صرف میں کام کرتا ہوں او ر دوسروں کو نہ تو تسلیم کرتا ہے اور نہ ان کے کاموں کو ہی سراہتا ہے۔ ٭
دل ہی دل میں کامیابی سے خوف زدہ رہتا ہے۔ کامیابی کاخوف بھی اس کاایک مرض بن جاتا ہے۔ ٭
وہ سمجھتا ہے، کہ میں اتنا برا نہیں جتنے دوسرے لوگ ہیں اور ہمیشہ اس ذہنی مقابلے میں رہتا ہے۔ ٭
وہ اپنی غلطی کو تسلیم نہیں کرتا اور خرابی اورناکامی کی ذمہ داری دوسروں پرڈالنے کی کوشش کرتا ہے۔ ٭
کامیاب فرد کے مقابلے میں کم کام کرتا ہے، مگر پھربھی وقت کی کمی کا رونا روتا ہے۔ ٭
بے حد ہیجانی کیفیت میں رہتا ہے اور بے حد سست اور کاہل ہوتاہے،بات اور کام کو ٹالتا ہے۔ ٭
کبھی عمدگی سے کام نہیں لیتا، بے حد کمزوری یاظلم کی حد تک بڑھ جاتا ہے، شخصیت میں عدم توازن ہوتا ہے۔ ٭
اپنے بولنے کی باری کے لیے مضطرب رہتا ہے اور دوسروں کے بولنے کے دوران بے چین رہتا ہے۔ ٭
وہ اپنے معاملات کے دفاع میں کہتا ہے کہ یہاں ہمیشہ اسی طرح کام ہوتاہے۔ ٭

 

 

کاپی رائٹ © تمام جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ دارالعمل چشتیہ، پاکستان  -- ۲۰۱۴



Subscribe for Updates

Name:

Email: