کہانی بہت پرانی ہے،سینکڑوں سال پرانی۔ اس زمانے میں آج جیسی سائنس کی ایجادات نہیں ہوئی تھیں اور جادو منتر کا بڑا زور وشور تھا۔ اُن ہی دنوں کی بات ہے کہ ایک شہر میں ایک سادھو رہتا تھا، جو اپنے منتر جادو کی وجہ سے دور دور تک مشہور تھا۔ اس کے چیلوں کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ انگلیوں پر گننا مشکل تھا۔
ایک دن سادھو چیلوں کو ساتھ لے کر کسی اور جگہ جا رہا تھا۔ راستے میں ایک بہت بڑا جنگل پڑتا تھا۔ یہ جنگل جتنا بڑا تھا، اس سے بھی زیادہ خطرناک تھا۔ اسے طے کرنے میں کئی دن لگ جاتے تھے۔ جنگلی جانوروں کے علاوہ اس میں ڈاکو بھی رہا کرتے تھے،جو مسافروں کو لوٹ لیتے تھے۔
سادھو اور اس کے چیلے دن بھرتو چلتے رہتے لیکن جیسے ہی سورج ڈوبنے کا وقت آتا، وہ کسی ایسی جگہ جو اُن کے خیال میں محفوظ ہوتی تھی، پڑائو ڈال دیتے تھے۔ جنگلی جانوروںسے بچائو کیلئے آس پاس جنگل کی سوکھی لکڑیاں جلادیتے تھے۔
ایک رات پچھلے پہر کسی گھوڑے کے ہنہنانے کی آواز سن کر سادھو کی آنکھ کھل گئی۔ اس نے دیکھا کہ وہ اور اس کے چیلے ڈاکوئوں کے گھیرے میں ہیں۔ وہ ہڑبڑا کراٹھ بیٹھا۔ اتنے میں ڈاکوئوں کا سردار گھوڑے سے اترا، اس نے بھالے کی نوک سادھو کے سینے پر ٹکادی اور گرج کر بولا’’ اگر تمہیں اپنی جان بچانی ہے تو تمہارے پاس جوکچھ ہے، ہمارے حوالے کردو‘‘۔
سادھو نے کہا ’’بھائی! ہم ٹھہرے سادھو، ہمارے پاس تمہیں کیاملے گا ؟
سردار اپنے ساتھیوں سے بولا’’ ان سب کی تلاشی لو‘‘۔ پلک جھپکنے میں تمام ڈاکو گھوڑوں پر سے اتر پڑے اور تلاشی لینے لگے۔ بیچارے سادھوئوں کے پاس انہیں کیا ملتا ؟اس ناکامی اور مایوسی نے ڈاکوئوں کے سردار کو سخت جھنجھلاہٹ میں مبتلا کردیا۔ اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا’’سادھو کو گرفتار کرلو‘‘۔ اس کے بعد وہ سادھو کے چیلوں سے مخاطب ہوا’’ تمہارے سادھو مہاراج ہماری قید میں ہیں،اگر تمہیں ان سے محبت ہے تو دس ہزار اشرفیاں لے کر آئو اور انہیں چھڑا کر لے جائو‘‘۔
چیلے ڈاکوئوں کے سردار کی یہ بات سن کر سناٹے میں آگئے۔ دس ہزار اشرفیاں انہوں نے کبھی خواب میں بھی نہیں دیکھی تھیں۔ لیکن سادھوپر ذرہ برابر بھی گھبراہٹ طاری نہیں ہوئی۔ اس نے اپنے چیلوں سے کہا ’’تم لوگ میری فکر نہ کرو اور اپنا سفر جاری رکھو، اگلی رات چودھویں کے چاند کی رات ہو گی، اس رات ان کا سوال پورا کردوں گا، اس کے بعد تم سے آملوں گا‘‘۔
دوسرے دن سادھو نے ڈاکوئوں سے کہا کہ ’’وہ دن بھرمیں جتنے کنکر چن سکتے ہیں، چن کر اکٹھے کرلیں ‘‘، چنانچہ ڈاکو سارا دن کنکر چننے میں لگے رہے۔
اُن کا سردار سادھو کی نگرانی کرتا رہا۔ شام تک وہاں کنکروں کاایک ڈھیر بن چکا تھا۔
جب آدھی کے قریب رات گزر گئی اور روٹی کی طرح گول چاند بالکل سر کے اوپر آگیا تو سادھو کنکروں کے ڈھیر کے پاس آلتی پالتی مارکر بیٹھ گیا۔ اس کے بعد اس نے کچھ پڑھنا شروع کیا۔ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد وہ کنکروں کے ڈھیر پر پوری طاقت کے ساتھ پھونک مارتا جاتا تھا۔ اس وقت اس کاچہرہ بڑا بھیانک معلوم ہوتا تھا اور منہ سے جو آواز نکلتی تھی وہ ایسی تھی، جیسے بڑا اژدہا سانس لے رہا ہو،سب ڈاکو سادھو کے پیچھے کھڑے اس تماشے کو تعجب کے ساتھ دیکھ رہے تھے۔ اچانک کنکروں کے ڈھیر میں ایک زبردست دھماکہ ہوا اور ہر طرف دھواں پھیل گیا۔ اس دھوئیں نے آن کی آن میں جنگل کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا تھا۔ ڈاکو خوف کے مارے ایک دوسرے سے لپٹے یہ سوچ رہے تھے کہ سادھو نے انہیں دھوکا دیا ہے اور دھماکہ کرکے فرار ہوگیا ہے۔
لیکن کچھ دیر کے بعد دھوئیں کی چادر رفتہ رفتہ ہٹنی شروع ہو ئی اور جب ڈاکوئوں نے دیکھا کہ سادھو اشرفیوں کے ایک بڑے ڈھیر کے پاس بیٹھا ہوا ہے،تو وہ خوشی سے دیوانے ہو گئے۔ اس دیوانگی میں وہ سادھو کو گود میں اٹھا کر ناچنے کودنے لگے۔
ڈاکوئوں نے اشرفیاں بوریوں میں بھر لیں اور گھوڑوں کی پیٹھ پر لادھ کر اسی وقت وہاں سے چل پڑے۔
سادھو کو اپناسفر صبح شروع کرناتھا۔ اس لئے وہ وہیں سو گیا۔
ڈاکو ابھی مشکل سے چار پانچ کوس گئے ہوں گے کہ لٹیروں کی ایک ٹولی نے ان پر حملہ کردیا، لیکن ڈاکوئوں کے سردار نے لیٹروں کے سردار سے کہا ’’ دیکھو ! پیشے کے لحاظ سے ہم بھائی ہیں، اس لئے یہ بات مناسب نہیں ہے کہ ہم ایک دوسرے کا مال لوٹیں، ہم یہ اشرفیاں جہاں سے لائے ہیں وہاں کا پتہ تمہیں بتاتے ہیں۔
یہاں سے چند کوس کے فاصلے پر تمہیں ایک سادھو ملے گا، وہ اشرفیاں بناتا ہے، تم اس کے پاس چلے جائو‘‘۔ لیٹروں نے گھوڑوں کی رفتار تیز کردی اور تیر کی طرح سادھو کے پاس پہنچ گئے۔ سادھو نے کہا’’ افسوس ! تم نے آنے میں دیر کی، رات کاوہ حصہ گزر چکا ہے، جس میں اشرفیاں تیار ہو سکتی تھیں۔ اب، اس رات کیلئے تمہیں پورا ایک ماہ تک انتظار کرناپڑے گا‘‘۔
لیٹروں نے سمجھا کہ سادھو بہانے بنارہا ہے، انہوں نے اس کے دونوںبازوئوں کو بھالے کی نوک سے چھید دیا لیکن سادھو نے اب بھی وہی بات کہی۔ اشرفیاں اسی وقت تیار ہو سکتی ہیں۔ جب چودھویں کاچاند رات کاآدھا حصہ طے کرکے ٹھیک اوپر آجائے، اس سے پہلے یااس کے بعد اشرفیاں بنانا ممکن نہیں‘‘۔
وہ لالچ میں اتنا انتظار کہاں کرسکتے تھے، لیٹروں کو غصہ آگیا اور انہوں نے سادھو کو قتل کردیا۔ اب لیٹروں نے ڈاکوئوں کے اس گروہ کا تیزی کے ساتھ پیچھا کیا، جواشرفیاں لئے جارہا تھا۔ صبح ہوتے ہوتے وہ ڈاکوئوں تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ دونوں گروہوں میں زبردست لڑائی ہوئی لیکن لیٹروں کا پلا بھاری رہا، انہوں نے ڈاکوئوں کو مار بھگایا اور اشرفیوں کی پوری بوریاں حاصل کرلیں۔ انہوں نے خوشی خوشی اشرفیوں کی بوریاں کھولیں لیکن یہ کیا ؟وہ بت بن کرایک دوسرے کامنہ تکنے لگے، بوریوں میں کنکروں کے سوا کچھ نہ تھا۔ سادھو کی موت کے ساتھ ہی اس کے منترکااثر بھی ختم ہو گیا تھا اور اشرفیاں پھر کنکروں میں تبدیل ہو گئی تھیں۔

ایسا بھی ہوتا ہے

نوفل بن ماحق ؒکہتے ہیں کہ نجران کی مسجد میں مَیں نے ایک نوجوان کو دیکھا، جو بڑا لمبا چوڑا،خوبصورت اور مضبوط بدن والا تھا۔ میں حیرت سے اس کے جمال کو دیکھنے لگا۔ اس نے مجھے حیران دیکھ کر پوچھا :
’’کیادیکھ رہے ہو ؟ ‘‘ میں نے کہا : ’’ مجھے آپ کے حسن وجمال پرتعجب ہورہا ہے ؟‘‘ اس نے جواب دیا : ’’تجھے ہی کیااللہ کو بھی تعجب ہو رہا ہے‘‘۔(نعوذ باللہ )
نوفل ؒکہتے ہیں کہ یہ کفریہ کلمہ کہتے ہی اس کاقد چھوٹا ہونے لگا، اس کارنگ وروپ بگڑ گیایہاں تک کہ اس کاقد صرف ایک بالشت رہ گیا، لوگ حیران رہ گئے، آخر اس کاایک رشتہ دار اسے اپنی جیب میں ڈال کر لے گیا۔

(ماخوذ ازتفسیر ابن کثیر۔جلد 4)
 

 

کاپی رائٹ © تمام جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ دارالعمل چشتیہ، پاکستان  -- ۲۰۱۴



Subscribe for Updates

Name:

Email: