کچھ عرصہ قبل ہمارے محلے میں ایک شخص آکر آباد ہوا۔ اس کا خاندان
چار بیٹوں،بہوئوں، پوتے پوتیوں اور اس کی بوڑھی بیوی پر مشتمل تھا۔ یہ آدمی کالے
علم کا ماہر تھا۔ لوگ بھاری رقم دے کر اس سے اپنے جائز اورناجائز مسائل حل کرواتے
تھے۔ خان بہادر ایک بدکار شخص تھا۔ وہ اپنی بیوی پر بھی ظلم کرتا تھا۔
ایک دن ایک نوجوان عورت اپنی پریشانی لے کر اس کے گھر آئی۔ اس کا شوہر اسے بہت
ستاتا تھا۔وہ عورت خا ن بہا در کو اچھی لگنے لگی۔وہ اس کا کام بہت کم پیسو ں میں
کرنے لگا اور اس سے ہمدردی جتا نے لگا۔وہ اسے بار بار اپنے گھر بلاتا۔ ایک دن اس نے
تنہائی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس عورت سے دست درازی کی کوشش کی جس سے عورت مشتعل
ہوگئی اور وہاں سے چلی گئی۔ اس دوران اتفاقاً اس عورت کے شوہر کا ایکسیڈنٹ ہوگیا
اور اس کا باز وٹوٹ گیا۔ جب خان بہادر کو اس بات کا علم ہوا تو اس نے ایک دن عورت
کو گلی میں تنہا پاکر کہا کہ ’’تم نے مجھ سے جو جادو کروایا تھا، اس کی وجہ سے
تمہارے خاوند کا بازو ٹوٹا ہے۔ میں یہ بات تمہارے شوہراور میرے پاس آنے والی تمام
عورتوں کو بتادوں گا۔ یہ بات خود بخود گائوں میں پھیل جائے گی۔ ‘‘
وہ بے چاری شوہر کی ستائی ہوئی عورت، ایک اور مصیبت میں گرفتار ہوگئی۔ وہ شوہر کو
راہِ راست پر لانے چلی تھی، اب اپنا سہاگ اور عزت دائو پر لگا بیٹھی۔ وہ خان
بہادرسے ملنے گئی اور اس کی منت سماجت کی کہ خدارا! ایسا نہ کرے وگرنہ وہ کہیں کی
نہ رہے گی۔ مگر خان بہادر پر ایک جنون سوار تھا۔ اس نے اس سے ناجائز مطالبہ کیا اور
آخر اس کی مجبوری سے فائدہ اٹھانا شروع کردیا۔ اب وہ عورت ناگفتہ بہ صورت حال سے
دوچار تھی۔ اپنی عصمت وعزت اورپاک دامنی کا سودا کرکے اپنا سہاگ خرید رہی تھی۔ مگر
آخر کب تک وہ بوڑھے خان بہادر کی ہوس کا نشانہ بنتی؟ ایک دن اپنے دو چھوٹے بچوں
اور شوہر کی پرواہ نہ کرتے ہوئے کانچ پیس کر کھا گئی۔ اس نے اس تکلیف اور اذیت میں
جان دی جو ناقابلِ بیان ہے۔ اس کی چیخیں اب بھی میری سماعت سے ٹکراتی ہیں تو میرا
دل کا نپ جاتا ہے۔ ہمارے علاقے خصوصًا گائوں میں یہ طریقہ کار ہے کہ لوگوں کا خوشی
اور غمی میں ایک دوسرے کے گھر بلا تکلف آنا جانا ہوتا ہے۔ اس کی چیخیں سن کر
قریباًپورا گائوں جمع ہوگیا۔ مگر کوئی بھی اس کی مدد نہ کرسکا۔ وہ اپنے بچوں کو
بلبلا تا چھوڑ کر اس دنیا سے چلی گئی۔ یہ کوئی نہیں جانتا تھا کہ اس کی موت کی اصل
وجہ کیا تھی۔ کوئی شوہر کی تیز طبیعت کو ظاہر کرتا، کوئی بیچاری کے ساتھ کسی آشنا
کا تعلق جوڑتا، غرض جتنے منہ اتنی باتیں۔ کافی عرصہ تک یہ واقعہ محفلوں اور گھروں
میں بیان ہوتا رہا۔
اس حادثے کو جب کافی عرصہ بیت گیا تو اتفاق سے خان بہادر کے منہ سے واقعہ اپنے کسی
دوست کے سامنے بیان ہوگیا۔ اب آہستہ آہستہ اس راز سے پردہ اٹھنے لگا۔ پھر بات کو
پر لگ گئے۔ لبوں سے نکلی اور کوٹھوں پرچڑھی والا واقعہ ہوگیا۔ جب یہ بات عورت کے
شوہر تک پہنچی تو وہ اپنی نئی بیوی اور بچوں سمیت گائوں چھوڑ کر غائب ہوگیا۔ اس کے
جانے کے بعد تو اصل واقعہ خوب نمک مصالحے کے ساتھ ہر حجرے، ہر گھر میں عبرت پکڑنے
کی غرض سے سنایا جانے لگا۔ یہ بات پھیلتے پھیلتے اس عورت (مرحومہ )کے بھائیوں تک جا
پہنچی۔ انہوں نے جب اپنی بہن کے ساتھ زیادتی کرنے والے خان بہادر کا نام سنا تو ان
کی آنکھوں میں خون اتر آیا۔ وہ اپنا گائوں چھوڑ کر کہیں غائب ہوگئے۔ ادھر خان
بہادر بدنام ہوگیا۔ اب لوگ اس کے پاس جانے سے کترانے لگے خصوصًا عورتیں تو اس طرف
کا رخ ہی نہ کرتیں۔
ایک دن سورج اپنی آب وتاب کے ساتھ چمک رہا تھا۔ لوگ معمول کے کاموں میں مصروف تھے۔
خان بہادر اپنے ایک بیٹے کے ہمراہ گھر کے سامنے کھیت میں گوڈی (کھیت سے غیر ضروری
جڑی بوٹیاں نکالنا) کررہاتھا۔ اچانک ایک طرف سے دو آدمی نمودار ہوئے۔ ان کے جسم پر
چادریں لپٹی ہوئی تھیں۔ جوں ہی وہ قریب آئے، انہوں نے چادروں کے نیچے سے کلاشن
کوفیں نکالیں اور چند لمحوں میں باپ بیٹے کو بھون ڈالا۔ فائرنگ کی آواز سن کر تمام
لوگ اپنے گھروں میں دبک کر بیٹھ گئے۔ کچھ دیر بعد خان بہادر کے گھر والوں کی چیخ
پکار سن کر لوگ نکلے تو وہ اوراس کا بیٹا خون میں لت پت پڑے تھے۔ بیٹے کے جسم میں
بارہ گولیاں لگی تھیں۔ وہ موقع پر ہی ہلاک ہو چکا تھا۔ البتہ اس کا باپ جس کو آٹھ
گولیاں لگیں تھیں، ابھی زندہ تھا۔ مگر اس کی حالت انتہائی خراب تھی۔ وہ دھیرے دھیرے
سانس لے رہا تھا۔ پانچ گھنٹے کی اذیت کے بعد بالآ خر وہ اپنے انجام کو پہنچا۔
دونوں باپ بیٹے کو اگلے دن گائوں کے قبرستان میں دفن کردیا گیا۔
اس واقعہ نے گائوں والوں کو ایک اور موضوع دے دیا کہ وہ عورت بے گناہ تھی۔ خان
بہادر نے اسے جال میں پھنسا یا اور اس سے زیادتی کی۔
کاپی رائٹ © تمام جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ دارالعمل چشتیہ، پاکستان -- ۲۰۱۴