اللہ تبارک و تعالیٰ نے مسلمانوں کو ایک بڑی دولت اور نعمت سے
نوازاہے۔ جوپورے دین کو جامع اور اس کی تبلیغ کا بہترین ذریعہ ہے۔ وہ نعمت اور دولت
اخلاق ہے۔ ہمارے نبی حضرت محمد رسول اللہ ﷺاخلاق کے اعلیٰ معیار پر فائز تھے۔
چنانچہ آپ ﷺ کی زندگی کی رازداراور آپ ﷺکی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا
فرماتی ہے کہ ”کان خلقہ القرآن‘‘،”آپ کے اخلاق کا نمونہ قرآن کریم ہے‘‘۔ آپ ﷺ نے
اپنے ہرقول وفعل سے ثابت کیا کہ آپ ﷺدنیا میں اخلاقِ حسنہ کی تکمیل کے واسطے تشریف
لائے تھے۔چنانچہ ارشاد ہے:
”بعثت لا تمم مکارم الاخلاق‘‘(مسند احمد ج:۴،ص:۱۲۲)
ترجمہ:’’میں اخلاق حسنہ کی تکمیل کے واسطے بھیجا گیاہوں‘‘۔
پس جس نے جس قدر آپﷺ کی تعلیمات سے فائدہ اٹھاکر اپنے اخلاق کو بہتر بنایا، اسی قدر
آپﷺ کے دربار میں اس کو بلند مرتبہ ملا۔ صحیح بخاری کتاب الادب میں ہے:
’’ان خیارکم احسنکم اخلاقا‘‘ (بخاری ج:۲، ص:۸۹۲)
ترجمہ:’’تم میں سب سے اچھا وہ ہے، جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں‘‘۔
حاکم کی روایت میں ہے کہ:’’قیامت کے دن ترازو میں سب سے زیادہ جو چیز بھاری ہوگی،
وہ اخلاق حسنہ ہے۔ حسن اخلاق والا انسان اپنے اخلاق حسنہ سے دائمی روزہ دار اور
دائمی نماز کا درجہ حاصل کرسکتا ہے‘‘۔
مصنف ابن شیبہ میں ہے: ’’لوگوں کو قدرت الٰہی سے جو چیز عطا ہوئی، ان میں سب سے
بہتر اچھے اخلاق ہیں‘‘۔
ترمذی شریف میں ہے کہ: ’’مسلمانوں میںسے اس کا ایمان مکمل ہے جس کے اخلاق سب سے
اچھے ہیں‘‘۔
بیہقیؒ میں روایت ہےکہ حضور ﷺنے ارشاد فرمایا:’’ تم میں میرا سب سے پیارا اور نشست
میں سب سے زیادہ نزدیک وہ ہے جو تم میں خوش خلق ہو اور مجھے ناپسند اور قیامت میں
مجھ سے دور وہ ہوں گے جو تم میں بداخلاق ہوں گے‘‘۔
حضور ﷺ کی ساری زندگی اخلاق حسنہ سے عبارت تھی۔ قرآن کریم نے خود گواہی دی’’انک
لعلی خلق عظیم‘‘ (بلاشبہ آپ اخلاق کے بڑے مرتبہ پر فائز ہیں)۔
انسان کے حالات سے واقف بیوی سے بڑھ کر دنیا میں کون ہوسکتا ہے۔ حضرت خدیجہ رضی
اللہ عنہاجو آپ ﷺکی زوجیت میں پچیس سال رہیں،آغاز وحی کے زمانہ میں آپ ﷺ کو ان
الفاظ میں تسلی دیتی تھی’’ہرگز نہیں، خدا کی قسم !خدا آپ کو کبھی غمگین نہیں کرے
گا۔ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں۔ مقروض کا بار اٹھاتے ہیں۔ غریبوں کی اعانت کرتے
ہیں۔مہمانوں کی ضیافت کرتے ہیں۔ حق کی حمایت کرتے ہیں۔ مصیبتوں میں لوگوں کے کام
آتے ہیں‘‘۔
(بخاری،ج:۱، ص:۲)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ’’آپ ﷺ کی عادت کسی کو برا بھلا کہنے کی نہ
تھی۔برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیتے تھےبلکہ درگذرفرماتے‘‘۔
لہٰذا ہم پر فرض ہے۔ خصوصًا انبیاء کرامؑ کے نائبین کو چاہئے کہ وہ لوگوں کے ساتھ
اچھے اخلاق سے پیش آئیں۔ اگر کسی سے کوئی غلطی سرزد بھی ہوجائے تو درگذر کرنے والے
بنیں۔ معذرت کو قبول کرنے والے بنیں۔ جیسے امام شافعیرحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اقبل معاذیر من یأتیک معتذرا ان بر عندک فیما قال او فجرا
لقد اطاعک من یرضیک ظاہرة ولقد اجلک من یعصیک مستترا
ترجمہ:’’ معذرت کرنے والے کی معذرت کو قبول کرلے، چاہے تمہارے خیال میں وہ بھلا ہو
یا برا ہو، ظاہر میں تجھے راضی رکھنے والا تیرا مطیع ہے اور جرم کرتے وقت تجھ سے
گھبرانے والے کے دل میں تیرا رحم ہے‘‘۔
اب اللہ کے کلام کی طرف آتے ہیں، اللہ تعالیٰ کا ارشاد پاک ہے :
’’خذ العفو وأمر بالعرف واعرض عن الجاہلین‘‘۔
تفسیر ابن کثیررحمہ اللہ میں ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضور اکرم ﷺ نے حضرت
جبرئیل علیہ السلام سے اس آیت کا مطلب پوچھا۔حضرت جبرئیل علیہ السلام نے اللہ
تعالیٰ سے دریافت کیا، پھر فرمایا: اس آیت میں آپ کو یہ حکم دیا گیا ہے:
’’ان اللّٰہ امرک ان تعفو عمن ظلمک وتعطی من حرمک وتصل من قطعک‘‘۔
ترجمہ:’’بے شک اللہ آپ حکم دیتا ہے کہ جو آپ پر ظلم کرے، آپ اسے معاف فرمادیں۔ جو
آپ کو محروم رکھے، آپ اسے عطا کریں اور جو آپ سے قطع تعلق کرے، آپ اس سے صلہ رحمی
سے پیش آئیں‘‘۔
غزوہ ٴ احد میں جب حضورﷺ کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو شہید کیا گیا اور بڑی بے
دردی سے ان کے اعضاء کاٹ کر لاش کی بے حرمتی کی گئی تو نبی کریم ﷺ نے لاش کو اس
ہیئت میں دیکھ کر فرمایا کہ جن لوگوں نے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایسا
معاملہ کیا ہے، میں ان کے ستر آدمیوں کے ساتھ ایسا معاملہ کرکے چھوڑوں گا۔ اس پر یہ
آیت نازل ہوئی۔ جس میں آپ ﷺکو یہ بتایا گیا کہ آپ ﷺ کا یہ مقام نہیں،آپ ﷺکے شایان
یہ ہے کہ عفو ودرگذر سے کام لیں۔لہٰذا عفو سے مراد لوگوں کے اعمال واخلاق میں سرسری
اطاعت کو قبول فرمالیا کریں، زیادہ تجسس وتفتیش میں نہ پڑیں اور ان کی خطاؤں سے
عفو ودرگذر کریں، ظلم کا انتقام نہ لیں۔ چنانچہ آپ ﷺ کے اعمال واخلاق ہمیشہ اسی
سانچے میں ڈھلے رہے، جس کا پورا مظاہرہ اس وقت ہوا جب مکہ فتح ہوا تو’’لاتثریب
علیکم الیوم‘‘ کا عمومی اعلان فرمایا اور آپ ﷺکے جانی دشمن جو آپ ﷺکے قبضہ میں آئے،
ان سب کو آزاد کردیا۔
دوسرا جملہ اس آیت مبارکہ کا’’وامر بالمعرف‘‘ ہے۔
عرف بمعنی معروف ہراچھے اور مستحسن کام کو کہتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ جو لوگ آپ ﷺکے
ساتھ برائی اور ظلم سے پیش آئیں، آپ ﷺان سے انتقام نہ لیں، بلکہ معاف کردیں مگر
ساتھ ان کو نیک کام کی ہدایت بھی کرتے رہیں گویا برائی کا بدلہ نیکی سے، ظلم کا
بدلہ صرف انصاف سے نہیں بلکہ احسان سے دیں۔
تیسرا جملہ ’’واعرض عن الجاہلین‘‘
جس کے معنی جاہلوں سے آپ ﷺکنارہ کش ہوجائیں۔ مطلب یہ کہ ظلم کا انتقام چھوڑ کر آپﷺ
ان کے ساتھ خیر خواہی اور ہمدردی کا معاملہ کریں اور نرمی کے ساتھ ان کو حق
بتلائیں۔ مگر بہت سے جاہل ایسے ہوتے ہیں جو اس شریفانہ معاملہ سے متاثر نہیں ہوتے۔
اس کے باوجود جہالت اور سختی سے پیش آتے ہیں تو پھر آپ ﷺان کی دل خراش اور جاہلانہ
گفتگو سے متاثر ہوکر ان ہی جیسی گفتگو نہ کریں، بلکہ ان سے کنارہ کش ہوجائیں۔ پس جو
اللہ پاک اور رسول اعظم ﷺکی خوشنودی حاصل کرنا چاہتے ہیں، وہ برے اخلاق سے دور رہیں
اور اخلاق حسنہ کے پیکر بنیں تو دنیا کے محبوب اور دنیا والوں کے بھی محبوب بنیں
گے۔
کاپی رائٹ © تمام جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ دارالعمل چشتیہ، پاکستان -- ۲۰۱۴