الحمدللہ رب العالمین الرحمن الرحیم العلی العظیم والصلوٰۃ علی من
کان نبیا و آدم بین الماء والطین۔
امابعد فاعوذباللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم
’’من کف غضبہ کف اللہ عنہ عذابہ‘‘
صدق اللہ العظیم۔صلو اعلی الحبیب
ایک دفعہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور عرض
کی’’ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! قیامت کے دن سب سے شدید چیز کیا ہو گی؟‘‘
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اللہ کا غضب؟‘‘ اس نے دریافت کیا ’’اللہ کے
غضب سے بچنے کا طریقہ کیا ہے؟‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’تم کسی پر
ناحق غضب نہ کرو‘‘۔
پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان عالیشان نفس پر قابو پانے کیلئے کافی ہے
کہ آج دنیا میں ہم کسی پر ناحق ظلم و ستم کر کے وقتی مفاد تو حاصل کر سکتے ہیں لیکن
قیامت کے دن اس کا انجام اللہ کی ناراضگی کی صورت میں ملے گا۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہےکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت
کیا:
’’ماذا یبعد نی من غضب اللہ قال ان لا تغضب‘‘
’’میں اللہ کے غضب سے کس طرح بچ سکتا ہوں؟‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
’’تم غضب نہ کیا کرو‘‘۔
ایک دوسری جگہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے کہ’’ان لوگوں کےلئے نشان
عبرت و حکمت ہے جو مردانگی کا دعویٰ کرتے ہیں، جن کے نزدیک ظلم و ستم کا بازار گرم
رکھنا بہادری ہے‘‘۔
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ماتعدون الصرعۃ فیکم؟ قلنا الذی لایصرعہ الرجال
قال لیس ذلک ولکن الذی یعلک نفسہ عندالغضب
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا’’اے میرے صحابہ! بھلا کیاہے تمہارےنزدیک
مردانگی ؟
تمام صحابہؓ کہتے ہیں ’’ہم نے عرض کی اے اللہ کے رسولﷺ! یہی کہ کوئی شخص اسے پچھاڑ
نہ سکے‘‘۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’ ایسا نہیں ہے (مردانگی یہ ہے کہ) غیض
و غضب کے وقت انسان خود پر قابو رکھے‘‘۔
گویا نفس پر اختیار حاصل ہو جائے۔ اسے حقیقی مردانگی کا نام دیا۔ انسان کا نفس جب
برائی کو پسند کرنے لگتا ہے تو اسے ایسی چھوٹی چھوٹی برائیاں خوبصورت انداز میں بنا
کر پیش کرتا ہے کہ یہ ان سے لذت حاصل کرتا ہے۔ یہی نہیں، ان برائیوں کو برائی شمار
ہی نہیں کرتا اور جب بصیرت پر پردہ پڑ جاتا ہے تو ان کاموں کے کرنے پر فخر کرتا ہے۔
غصہ تو عقل کا دشمن ہے۔ غصہ عقل پر غالب آجائے تو انسان اپنے پرائے کی تمیز بھول
جاتا ہے۔
ہمارے معاشرے میں انتشار کا ایک بڑا سبب یہی ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ہم ایک دوسرے
سے ناراض ہو جاتے ہیں اور ایسی ایسی لڑائیاں پیدا کر لیتے ہیں جو ایک یا دو دن
نہیں، آخری سانسوں تک ناراضگیوں اور دشمنیوں کا باعث بنتی ہیں۔
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے:
’’ان رجلا قال یارسول اللہ دلنی علی عمل قلیل قال لاتغضب ثم اعاذ علیہ قال
لاتغضب‘‘۔
ایک شخص نے عرض کیا’’ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! مجھے کسی مختصر سے عمل کے
بارے میں بتائیں‘‘ تو آپﷺ نے فرمایا’’تم غضب نہ کرو‘‘۔ اس نے اپنا سوال دہرایا تو
آپ ﷺنے فرمایا’’ تم غضب نہ کرو‘‘۔
سبحان اللہ! پیارے نبی کریم رحمت اللعالمینﷺ نے اپنے امتیوں کو اتفاق و اتحاد کا
کیا انمول تحفہ عطا کیا ہے اور حسنِ معاشرہ کے دوام کے کیسے کیسے راز عطا فرمائے
ہیں۔ جن پر عمل معاشرے میں امن، سکون اور سلامتی کا ضامن ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ’’ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من کف
غضبہ ستراللہ عورتہ‘‘
’’جو شخص اپنے غضب پر قابو رکھے اللہ تعالیٰ اس کی پردہ پوشی کرتا ہے‘‘۔
اسی طرح ایک اور روایت ہے جس کے راوی حضرت ابو درداءؓ ہیں۔فرماتے ہیں ’’ قلت یارسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دلنی علی عمل یدخلنی الجنۃ قال لاتغضب‘‘
ایک دن میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا ’’مجھے کسی ایسے عمل کے
بارے میں بتائیں جس کی بدولت میں جنت میں داخل ہو جائوں‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم
نے فرمایا’’ تم غضب نہ کرو‘‘۔
ایک اور حدیث میں ہے: ’’ماغضب احد الاشقی علی جہنم‘‘۔ ’’جو شخص غضب ناک ہوتا ہے، وہ
جہنم کے کنارے تک پہنچ جاتا ہے‘‘۔
ان تمام احادیث کے بعد ایک حدیث جو مومن کیلئے بشارت بھی ہے اور جنت میں سرکار دو
عالمﷺ کے پڑوس کے حصول کیلئے گارنٹی کی حیثیت رکھتی ہے۔پیارے رسول صلی اللہ علیہ
وسلم نے ارشاد فرمایا
الغضب جمرۃ من النار من اطفاء ھا کان معی فی الجنۃ
’’غصہ جہنم کا ایک انگارہ ہے جو اسے بجھا دے گا، وہ میرے ساتھ جنت میں ہو گا‘‘۔
یاد رہے! غصہ ایک آتشیں قوت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص حکمت کے تحت انسان کے
ضمیر میں رکھا ہے تاکہ انسان نقصان پہنچانے والی چیزوں سے بچ سکے۔ اور غصے کی آگ
انسانی طبیعت میں اسی طرح موجود ہے جیسے راکھ میں آگ موجود ہوتی ہے۔ اس آگ کی غذا
یہ ہے کہ انسان اپنے مخالف سے انتقام لے۔ جیسے ہی انسان کو کوئی نقصان پہنچاتا ہے
تو یہ آگ فوراً بھڑک اٹھتی ہے۔ جس کے نتیجے میں رگوں میں گردش کرتے خون کی رفتار
تیز ہو جاتی ہے۔ اس کا اثر چہرے کی سرخی کے طور پر ظاہر ہوتا ہے۔
انسانی دماغ چونکہ سوچ اور فکر کا مرکز ہے، جب انسان بے شمار غصہ کرتا ہے تو اس کے
نتیجہ میںسوچ اور فکر کی صلاحیت مفقود ہو جاتی ہے۔
یہی نہیں اگر مدِّمقابل کمزور ہو تو اس کو نقصان پہنچا کر وبالِ جان کامعاملہ پیدا
کر سکتے ہیں اور اگر مدِّمقابل بہت طاقتور ہے تو انتقام نہ لے سکنے کی مایوسی غصے
میں شامل ہو جاتی ہے، جس کا اثر دل پر پڑتا ہے۔ اس طرح خون کا دبائو دل پر بڑھ جاتا
ہے اور ہارٹ اٹیک ہونے کا خدشہ بھی ہوتا ہے۔ اور اگر مدِّمقابل ہم مرتبہ ہو تو دل
کی بجائے خون کا دبائو جسم کے دیگر اعضاء کی طرف بڑھ جاتا ہے۔ اس طرح طبیعت میں
اضطراب کی سی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے جو انسان کوپریشان کئے رکھتی ہے۔ نتیجتاً انسان
کے کام کرنے کی، سوچنے کی صلاحیت کمزور پڑ جاتی ہے۔
یاد رہے! غضب اور ناراضگی اگر افراط کے ساتھ ہو تو تب بھی یہ عنصر انسانی صحت اور
دیگر معاملاتِ حیات کے لئے نقصان کا باعث ہے اور اگر تفریط کے ساتھ ہو تب بھی یہ
عنصر معاملاتِ حیات میں بگاڑ کا باعث ہے۔ البتہ اس کی درمیانی صورت ہے کہ اعتدال سے
اس طرح چلے کہ شریعت اور عقل دونوں کے تابع ہو۔ اگر کسی موقع پر شریعت اور عقل اس
کو ابھاریں، جیسے حرمت سولﷺ کا معاملہ ہے یا اسے دبائیں تو دونوں صورتوں میں انسان
کو اپنے اوپر اتنا قابو ہو کہ حلم و عفو کے وقت ان صفات سے خود کو متصف کرے۔
شریعت کے معاملے میں مَیں نے بات کی تو اس سلسلہ کو آپ یوں سمجھ لیں، حدیث کی روشنی
میں بیان کرتا ہوں۔
کان رسول اللہ لایغضبہ لدنیافاذا غضبہ الحق لم یعرفہ احدولم یقیم لغضبہ شی حتی
ینتصرلہ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کبھی بھی کسی دنیاوی معاملے میں غصہ نہیں فرماتے تھے۔
البتہ حق کی خاطر آپﷺ غضبناک ہو جاتے تھے اور اس وقت کوئی آپﷺ کو پہچان نہیں سکتا
تھا اور آپﷺ کا غضب اس وقت ختم ہوتا، جب باطل ختم ہو جاتا۔
اگر سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مطالعہ کریں تو ایسے کثیر واقعات ملتے ہیں کہ
آپﷺ اپنے پیارے صحابہؓ کی اصلاح کی خاطر ان سے منہ موڑ لیتے یا شرع اللہ کی جانب
کسی بات پر آپﷺامت کو سبق دینے کے لئے صحابہؓ سے ناراض ہوتے تو یہ شرعی معاملے
تھے۔جیسے غصہ کرنا اولاد کو فرائض کی پابندی کروانے پر، دین سکھانے پر۔ ان معاملات
میں بین الافراط و التفریط۔ اعتدال کے ساتھ غصہ اچھا ہے اور اس امر کا متقاضی بھی
ہے۔
ان مذکورہ امور کو اگر انسان عمل میں لے آئے تو گویا اس کا غصہ اور غضب بھی عبادت
شمار ہو گا۔ لیکن دوسری طرح کا غضب، جس سے عزت داغ دار ہو، عظمتِ انسان پامال ہو،
زبان گالی گلوچ کی گندگی سے ملوث ہو، ایسے غصے کے متعلق حضرت علیؓ سے حضورﷺ کا یہ
ارشاد نقل ہے:
وانہ لیکتب جبارا …’’اور بے شک غصہ کرنے والے کا نام جباروں کے ساتھ لکھا جاتا
ہے‘‘۔
اس کے برعکس اگر انسان غضب پر قابو رکھے تو وہ اس انعامِ داوند کریم
سے بہرہ ور ہو گا۔ حدیث مبارکہ ہے۔
من كظم غيظا و لو شاء أن يمضيه أمضاه ملأ الله قلبه يوم القيامة امناً وایمانا
’’جو شخص اپنے غصے پر قابو پائے، اس وقت جب کہ وہ غصے کے اظہار کی قدرت رکھتا ہو تو
اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے دل کو امن و ایمان سے بھر دے گا‘‘۔
اس حدیث کا بالواسطہ مفہوم یہ ہے کہ جو شخص اپنے ماتحتوں کے ساتھ زیادتی کرے گا، وہ
آخرت میں ابدی سعادتوں سے محروم رہے گا۔
کاپی رائٹ © تمام جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ دارالعمل چشتیہ، پاکستان -- ۲۰۱۴