موسمِ گرما کاعمدہ اور لذیذ، جاذبِ نظرایک پھل ’’آم‘‘ بھی ہے۔ کیا کیاجائے کہ آج کل کے مہنگائی کے دورمیں آم، عام آدمی کی قوت خرید سے باہر ہے۔ آندھیوں کی وجہ سے آم کی فصل متاثر ہو جائے تو یہ خسارہ بھی عام آدمی کو ہی برداشت کرنا پڑتا ہے۔ خدا نہ کرے کہ چاہنے والا کوئی دل اس نعمت سے محروم رہے۔اللہ تعالیٰ سب کچھ پیدا کرنے والا، سب کچھ کامالک ہے اور پالن ہار بھی۔ اسی لئے کسی کوکچا، کسی کوپکا،مہیا کرکے سا ری مخلوق کی ضروریات پوری کرتاہے۔
آم کاپودا شروع سے ہی اپنی خوبیوں سے نوعِ انسانی کونوازنا شروع کردیتا ہے۔ جو ان ہو کر جب پھول دینے لگتا ہے تو اس کے پھولوں کوچند دن تک ہاتھوں پر مسلا جاتا رہے تو کہتے ہیں زہریلے جانور کے کاٹے پرہاتھ پھیرنے سے، اس کے اذیت ناک اثرات جاتے رہتے ہیں۔جب پھل نکل آئے اوراس کی گٹھلی ابھی کچی ہو تو پھوبھل میں دبا کراس کارس چینی ملاکرپئیں تو اس سے گرمی کے اثرات زائل ہو جاتے ہیں۔خشک بورکا سفوف ۲ماشے بھر کھاتے رہنے سے مرض جریان کاخاتمہ ہو جاتا ہے۔ جب آم بڑا ہو جائے تو کاٹ کر اس کی گٹھلی پھینک دیں۔ چھیل کرخشک کریں اور پیس لیں۔ کھانوںمیں اسے ڈال کراستعمال کرنا، غذا کو لذیذ اور ہاضم بناتا ہے۔ اسی طرح کچے آموں کو کاٹ کر اس کااچار بھی بناتے ہیں۔ یہ بھی ایک لذیذ اور ہاضم خوراک ہے۔ البتہ اس کازیادہ استعمال نزلہ، کھانسی، گلے کی خرابی کا موجب بن جاتا ہے۔ اچار بنانے کاطریقہ یہ ہے کہ کچے آموں کی چار پھانکھیں بناکرگٹھلی نکال دیں۔ ایک سیرپھانکوں میں ۲چھٹانک نمک،۲تولے ہلدی، ایک چھٹانک میتھی کابیج، نصف چھٹانک کلونجی، نصف چھٹانک سونف،نصف چھٹانک کالی مرچ، نصف چھٹانک سرخ مرچ باہم ملا کر دردرا کرلیں اور پھانکوں سمیت روغنی یاپتھر کے کسی برتن میں ڈال کرچند دن دھوپ میں رکھ دیں۔ گاہے بگاہے ہلاتے رہیں۔ چند دن میں سب کچھ گھل مل جائے گا اور آم کی پھانکیں قابل استعمال ہو جائیں گی۔
آم سے تیار ہونے والی ایک اور شے آم کی چٹنی ہے۔ یہ بھی بڑی لذیذ اور مزیدار ہوتی ہے۔ سارا سال کام آتی ہے۔ دسترخوانوں پراکثر استعمال میں لائی جاتی ہے۔ ہاضم اور بڑی چٹپٹی ہوتی ہے۔ چٹنی تیار کرنے کے لئے آم دھو کر چھیل لیں۔ اس کی کاشیں بنائیں ۔اگر یہ دو پونڈ ہوں توان میں ایک اونس گرم مصالحہ، ڈیڑھ اونس سرخ مرچ، ایک اونس سبزادرک،چار اونس پیاز، ایک اونس لہسن… سب پوٹلی میں باندھ کرمناسب مقدا ر پانی کے ساتھ ڈال کرگلائیں۔ جب کاشیں خوب گل جائیں تو ٹھنڈا کرکے پوٹلی نچوڑ کرپھینک دیں۔دواونس نمک اوردوپونڈ چینی ڈال کر آگ پردوبارہ رکھ کرپکائیں۔ آٹھ اونس سرکہ بھی ڈال دیں۔ جب چاش خوب تیار ہو جائے تواتار کر ٹھنڈا کرکے کھلے منہ کی بوتلوں میں بھرلیں اور مضبوط کارک لگاکرمحفوظ کرلیں۔ بوقت ضرورت استعمال کریں۔ جب تک تازہ آم ملتے رہیں، ان سے فائدہ اٹھاتے رہناچاہئے۔
پیوندی آم کی مشہوری قسمیں مالدہ، دسہری، لنگڑہ، رٹول، ثمر،بہشت، چونسہ ہے۔ یہ خوشبودار توہوتے ہیں لیکن دیر ہضم ہوتے ہیں۔ رس بھی ان میں کم ہوتا ہے۔ زیادہ مقدار میں کھائے بھی نہیں جاسکتے۔تخمی آم رس دار اور ہاضم ہوتے ہیں۔ بعض ذائقے کے لحاظ سے خاصے میٹھے اور بعض کھٹے میٹھے ہوتے ہیں۔ ایسے آم چوس کرکھانے چاہئیں۔ اسکواش وغیرہ بھی ایسے ہی آموں کابنتا ہے۔ آموں کاملک شیک بنا کراستعمال کرنے کا بھی عام رواج ہے۔ یہ بھی مقوی غذا ہے۔ آم ویسے کھانے سے پہلے ٹھنڈے پانی میں کچھ دیر کے لئے بھگودیں، پھریہ پانی الٹ کرزیادہ ٹھنڈے پانی میں کچھ دیر کیلئے بھگودیں، پھراستعمال میں لائیں۔ اس طرح ان کی طبعی گرمی بھی کم ہو جاتی ہے۔
آم کی ڈنڈی کی جگہ لیس دار مادہ ہوتا ہے۔ یہ بڑا تیز ہوتا ہے۔ خراش پید ا کرتا ہے۔ اگرچوس کرکھانے ہوں تو اس حصہ کو نچوڑ کر یہ تیز مادہ ضائع کرکے استعمال کریں۔ اگر کاٹ کرکھانے ہیں تو نتھنی کی جگہ کچھ نیچے تک کاٹ دیں۔ کچا آم سرد اورخشک ہوتاہے۔ پکا ہوا آم طبعی طورپر گرم وتر ہوتاہے۔ آم میں نشاستہ اور روغنی اجزا ءکے علاوہ فاسفورس، کبرے ٹن، فولاد، کیلشیم، پوٹاشیم، گلوکوز،وٹامنز اے بی، ج، د اور سی بھی پائے جاتے ہیں۔ آم چہرے کے رنگ کونکھارتاہے۔ عمدہ خون پیدا کرتا ہے۔ قبض کشا ہے۔ پیشاب آور بھی ہے۔ بلغم کو پتلا کرکے خارج کرتا ہے۔ دمہ کے مریضوں کو پتلے رس کے میٹھے آم استعمال کرنا چاہئیں اور برف زدہ بھی نہ ہوں۔ آم مقوی باہ بھی ہے۔ آموں کی گٹھلی کے مغز کو بھون کر استعمال کرنے سے دست آنے رک جاتے ہیں۔ آم کی لکڑی بھی بڑے کام کی چیز ہے۔ جلانے کے علاوہ آم کی لکڑی سے ہرقسم کا فرنیچر بھی تیار کیا جاتا ہے۔ فرنیچر ہلکا بھی ہوتاہے اور پائیدار بھی۔
اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کے لئے طرح طرح کی نعمتیں پیدا فرمائی ہیں۔ ہر نعمت اپنی جگہ پر قابل قدراور اہم ہے اور پھرہر خطہ کو الگ الگ خصوصیت بھی عطا ءکی ہے۔ ہرنعمت کسی خاص علاقے سے خصوصی نسبت رکھتی ہے۔ ہر سرزمین میں پیدا اور پرورش پانے والے پھل کی خوبیاں اور عمدگی اپنی ہی ہوتی ہے۔ مثال کے طور پرضلع ملتان اورمظفر گڑھ میں پیدا ہونے والے آم اپنی نظیر آپ ہیں۔ ان علاقوں میں آم بکثرت بھی پیدا ہوتا ہے اور دنیا کے دوسرے ممالک کو برآمد بھی کیا جاتا ہے۔
 

 

کاپی رائٹ © تمام جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ دارالعمل چشتیہ، پاکستان  -- ۲۰۱۴



Subscribe for Updates

Name:

Email: