جینی کہتی ہے:‏ مائیکل کی ماں مجھے نیچا دکھانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتی۔‏دوسری طرف میرے ماںباپ بھی میرے شوہر کو بالکل پسند نہیں کرتے۔‏وہ اُس کے ساتھ بہت بُری طرح پیش آتے ہیں۔‏اِسی لئے ہم دونوں ایک دوسرے کے والدین کے ساتھ ملنے سے گھبراتے ہیں۔‏
مائیکل کہتا ہے:‏ میری ماں کا خیال تھا کہ کوئی بھی اور عورت اُس کے بچوں کی اچھی طرح دیکھ بھال نہیں کر سکتی۔ اِس لئے اُس نے پہلے دن سے ہی میری بیوی جینی میں نقص نکالنے شروع کر دیئے۔ جینی کے ماںباپ بھی میرے ساتھ ایسا ہی کرتے تھے۔ وہ ہمیشہ مجھے نیچا دکھانے کی کوشش کرتے تھے۔ اِس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مَیں اور جینی اپنےاپنے ماں باپ کی طرفداری کرتے اور ایک دوسرے کو جلی کٹی سناتے تھے۔‏
ساس سُسر کے ساتھ اَن بن کو اکثر مزاحیہ انداز میں پیش کِیا جاتا ہے۔‏مگر حقیقت میں یہ ایک سنجیدہ معاملہ ہے۔ انڈیا کی ایک خاتون رینا بیان کرتی ہے:‏ ”‏میری ساس کئی سال تک ہم میاںبیوی کے درمیان دراڑ ڈالنے کی کوشش کرتی رہی۔ مَیں اپنی ساس کو تو کچھ نہیں کہہ سکتی تھی، اِس لئے اپنا سارا غصہ اپنے شوہر پر نکال دیتی تھی۔‏میرا شوہر ہمیشہ اِسی شش وپنج میں رہتا تھا کہ ایک اچھا شوہر بن کر بیوی کا ساتھ دے یا پھر ایک اچھے بیٹے کا فرض نبھائے اور اپنی ماں کا ساتھ دے۔‏“‏
مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بعض ساس سُسر اپنے شادی شُدہ بچوں کی زندگی میں دخل اندازی کیوں کرتے ہیں؟ اِس مضمون کے شروع میں جینی کا ذکر کِیا گیا ہے۔ اُس کے خیال میں اِس مسئلے کی ایک وجہ یہ ہے کہ ”‏ساس سُسر کو یہ بات ایک آنکھ نہیں بھاتی کہ اُن سے عمر اور تجربے میں کم کوئی شخص آکر اُن کے بیٹے یا بیٹی کی ذمہ داری سنبھال لے‏“۔‏اِس سلسلے میں رینا کا شوہر دلیپ کہتا ہے کہ ”‏بہت سی تکلیفیں اُٹھا کر اپنے بچوں کو پالنے والے ماںباپ یہ محسوس کرنے لگتے ہیں کہ اب اُن کی کوئی وقعت نہیں رہی۔ اُنہیں یہ فکر ستاتی ہے کہ اُن کا بیٹا یا بیٹی ابھی ناسمجھ ہے۔ اِس لئے اُسے ازدواجی زندگی کے مسائل سے نپٹنا نہیں آتا‏“‏۔
لیکن سچ تو یہ ہے کہ بعض اوقات شوہر اور بیوی خود ہی ساس سُسر کو اپنے معاملے میں مداخلت کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔ اِس سلسلے میں آسٹریلیا کے رہنے والے مائیکل اور لیانہ کی مثال پر غور کریں۔ مائیکل بیان کرتا ہے:‏ ”‏لیانہ کے خاندان کے سبھی افراد ایک دوسرے کے بہت قریب تھے اور ہر معاملے پر آپس میں کُھل کر بات کرتے تھے۔ ہماری شادی کے بعد بھی لیانہ ضروری فیصلے کرنے کے لئے میری بجائے اکثر اپنے باپ سے مشورہ لیتی تھی۔‏اگرچہ اُس کا باپ اچھا مشورہ دیتا تھا توبھی مجھے یہ بات بالکل پسند نہیں آتی تھی کہ جو فیصلے ہم دونوں کو مل کر کرنے چاہئیں، وہ اُن کے لئے کسی اَور کے پاس جائے‏“‏۔
واقعی ساس سُسر کے ساتھ اَن بن ازدواجی بندھن کو خطرے میں ڈال دیتی ہے۔‏کیا آپ بھی کسی ایسے ہی مسئلے کا سامنا کر رہے ہیں؟ آپ اپنے ساس سُسر کے ساتھ کیسے گزارہ کر رہے ہیں؟ آئیں دو حالتوں کا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ آپ اِن سے کیسے نپٹ سکتے ہیں۔

پہلی صورتحال

آپ کا جیون ساتھی اپنے ماںباپ سے بہت پیار کرتا ہے۔‏سپین کا رہنے والا لوئس نامی شوہر کہتا ہے:‏ ”‏میری بیوی کا خیال تھا کہ اگر ہم اُس کے والدین سے کہیں دُور گھر لے کر رہیں گے تو اِس سے ظاہر ہوگا کہ وہ اُن سے محبت نہیں کرتی۔‏لیکن جب میرے والدین ہمارے بیٹے کی پیدائش کے بعد ہر روز اُسے ملنے آتے تھے تو میری بیوی بہت ناراض ہوتی تھی۔‏ اِسی بات کو لے کر ہم میں اکثر جھگڑا ہوتا تھا۔‏“‏
قابلِ غوربات:‏ ازدواجی بندھن میں بندھنے کے بعد شوہر اور بیوی ایک نیا خاندان بناتے ہیں جو اُن کے ماںباپ کے خاندان سے بالکل الگ ہو تا ہے۔ اِس کے باوجود شوہر اور بیوی دونوں کو اپنے والدین کی عزت کرنی اور اُن کو توجہ دینی چاہئے۔ لیکن اگر آپ کو محسوس ہوتا ہے کہ آپ کا جیون ساتھی آپ سے زیادہ اُن کو توجہ دیتا ہے تو پھر آپ کیا کر سکتے ہیں؟‏
آپ کیا کر سکتے ہیں؟: اِس صورتحال پر دانشمندی سے غور کریں۔ کیا واقعی آپ کا جیون ساتھی اپنے ماںباپ سے بہت پیار کرتا ہے جب کہ آپ اپنے ماںباپ کے اتنے قریب نہیں ہیں؟ اگر ایسا ہے تو یہ بات اِس صورتحال پر کتنا گہرا اثر کرتی ہے؟ کیا آپ حسد کرنے لگے ہیں؟
اِن سوالوں کے جواب دینے کے لئے یہ بہت ضروری ہے کہ آپ صاف دلی سے اپنا جائزہ لیں۔ اگر ساس سُسر کی وجہ سے آپ دونوں میں اکثر جھگڑا ہوتا ہے تو دراصل آپ کے ساس سُسر نہیں بلکہ آپ کی اپنی شادی شُدہ زندگی میں کوئی مسئلہ ہے۔‏
شادی میں اکثر مسائل کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ شوہر اور بیوی معاملات کو ایک نظر سے نہیں دیکھتے۔‏کیا آپ مسائل کو اپنے ساتھی کی نظر سے دیکھنے کی کوشش کر سکتے ہیں؟میکسیکو میں رہنے والے آڈریان نامی شوہر نے ایسا ہی کِیا۔ وہ کہتا ہے کہ ”‏میری بیوی کے والدین کے گھر کا ماحول اچھا نہیں تھا۔‏ اِس لئے مَیں اپنے ساس سُسر سے زیادہ میل جول نہیں رکھتا تھا۔‏ایک وقت آیا کہ مَیں نے اُن کے ساتھ تعلقات بالکل ہی ختم کر دیئے۔ اِس سے ہم دونوں میاںبیوی میں جھگڑے ہونے لگے کیونکہ میری بیوی اپنے خاندان،‏ خاص طور پر اپنی ماں کو چھوڑنا نہیں چاہتی تھی‏“‏۔
آخرکار آڈریان کو اِس مسئلے کا مناسب حل مِل گیا۔ وہ بیان کرتا ہے:‏ ”‏مَیں جانتا ہوں کہ میری بیوی کا اپنے والدین سے زیادہ میل جول اُس پر بُرا اثر ڈالتا ہے لیکن اگر مَیں اُسے اُن سے بالکل ہی نہ ملنے دوں تو اِس سے اَور بھی زیادہ مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ لہٰذا، مَیں نے اپنے ساس سُسر کے ساتھ مناسب تعلقات قائم رکھنے کی کوشش کی ہے۔‏“‏
عملی مشورہ:‏ آپ دونوں مل کر لکھیں کہ آپ کو ساس سُسر کے سلسلے میں کون سے بنیادی مسائل کا سامنا ہے؟ آپ کچھ ایسے شروع کر سکتے ہیں ”‏میرا خیال ہے کہ .‏ .‏ .‏ “‏ اِس کے بعد اپنے صفحے ایک دوسرے کو دے دیں۔‏ اب دونوں مل کر سنجیدگی سے غور کریں کہ آپ اِن مسائل کو کیسے حل کر سکتے ہیں؟

دوسری صورتحال

آپ کے ساس اور سُسر ہمیشہ آپ دونوں کی زندگی میں دخل اندازی کرتے اور آپ کی مرضی کے بغیر ہی مشورے دیتے رہتے ہیں۔ قازقستان سے نیلہ نامی ایک عورت کہتی ہے کہ ”‏شادی کے پہلے سات سال ہم اپنے سُسرال والوں کے ساتھ رہے۔‏میرے ساس سُسر ہمیشہ اِس بات پر جھگڑا کرتے تھے کہ ہم اپنے بچوں کی صحیح طرح دیکھ بھال نہیں کرتے۔ اِس کے علاوہ اُنہیں میرا کھانا پکانا اور صفائی کرنا بھی پسند نہیں تھا۔ مَیں نے اپنے شوہر اور ساس سُسر سے اِس مسئلے پر بات کی مگر جھگڑا مزید بڑھ گیا‏“‏۔
قابلِ غور بات:‏ شادی کے بعد آپ اپنے ماںباپ کے اختیار کے تحت نہیں رہتے۔ لیکن ہم پہلے لکھ چکے ہیں کہ شوہر اور بیوی دونوں کو والدین کی عزت کرنی چاہئے۔ لیکن اگر آپ کے والدین یا پھر ساس سُسر زبردستی اپنی بات منوانے کی کوشش کرتے ہیں تو آپ کیا کریں گے؟‏
آپ کیا کر سکتے ہیں؟: ‏ ٹھنڈے دماغ سے یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ اُن کے دخل اندازی کرنے کی وجہ کیا ہے؟ اِس مضمون کے شروع میں ہم نے مائیکل کے بارے میں پڑھا تھا۔ وہ اِس سلسلے میں بیان کرتا ہے:‏”بعض اوقات والدین محض یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ بچوں کو ابھی بھی اُن کی ضرورت ہے۔‏“ پس کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ والدین جان بوجھ کر مداخلت نہیں کرتے۔‏ لہٰذا اِس نصیحت پر عمل کرنے سے اِس مسئلے پر قابو پایا جا سکتا ہے کہ ”‏اگر کسی کو دوسرے سے شکایت ہو تو ایک دوسرے کی بات برداشت کرے اور ایک دوسرے کے قصور کومعاف کرے‏“‏۔
تاہم،‏اگر ساس سُسر کی مداخلت کی وجہ سے آپ دونوں میاںبیوی میں جھگڑا ہونے لگتا ہے توپھر کیا کِیا جانا چاہئے؟‏
بعض شادی شُدہ جوڑے سمجھ گئے ہیں کہ اُنہیں اپنے والدین کو کس حد تک مداخلت کرنے کی اجازت دینی چاہئے۔ اِس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ والدین کو اپنے ذاتی معاملات میں بولنے سے بالکل ہی منع کر دیں۔‏اکثر آپ اپنی بات چیت یا کاموں سے یہ ظاہر کر سکتے ہیں کہ آپ کا جیون ساتھی آپ کی زندگی میں کتنی زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ مثال کے طور، جاپان سے ماسایوکی نامی ایک شوہر کہتا ہے: ”‏اگر والدین اپنی سوچ کا اظہار کرتے بھی ہیں تو فوراً اُن سے متفق نہ ہو جائیں۔ یاد رکھیں کہ آپ ایک نئے خاندان کی بنیاد ڈال رہے ہیں۔‏اِس لئے پہلے یہ جاننے کی کوشش کریں کہ آپ کا ساتھی اُن کے مشورے کے بارے میں کیسا محسوس کرتا ہے؟‏“‏
عملی مشورہ:‏ اپنے ساتھی کے ساتھ بات کریں کہ کس طرح والدین کی طرف سے مداخلت اُن کی شادی شُدہ زندگی میں لڑائی جھگڑے کا باعث بن رہی ہے۔ ایک بار پھر دونوں مل کر بیٹھیں اور لکھیں کہ آپ کن حالات میں اُنہیں مداخلت کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ آپ جو بھی فیصلہ کرتے ہیں اُس پر قائم رہیں۔‏لیکن یہ سب کچھ کرتے وقت اپنے والدین کے ساتھ احترام سے پیش آنا کبھی نہ بھولیں۔‏
ساس سُسر کے جذبات کو سمجھنے سے بھی بہت سے جھگڑوں پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ اِس کے علاوہ، اُن کے ساتھ نااتفاقی کو اپنی ازدواجی زندگی میں خرابی پیدا کرنے کی اجازت ہرگز نہ دیں۔ اِس سلسلے میں جینی بیان کرتی ہے:‏ ”‏بعض اوقات ہم دونوں میاںبیوی اپنے والدین کو لے کر بہت جذباتی ہو جاتے تھے۔ یہ بات صاف ظاہر تھی کہ اپنےاپنے والدین کی خامیوں کے بارے میں بات چیت کرنا ہم دونوں کے لئے بہت ہی تکلیف دہ تھا۔ لہٰذا، اپنے لڑائی جھگڑوں پر قابو پانے کے لئے سب سے پہلے ہم نے ایک دوسرے کو اپنے ساس سُسر کی کمزوریوں کے طعنے دینا بند کر دیئے۔ اِس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہم دونوں ایک دوسرے کے بہت قریب آ گئے ہیں‏“‏۔

اھم نوٹ

 نام بدل دئے گئے ہیں۔‏

…*

 اگر والدین کسی طرح کی سنگین بدچلنی میں پڑ گئے ہیں اور وہ اِسے چھوڑنا نہیں چاہتے تو اِس سے خاندانی تعلقات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔ ایسی صورت میں بہتر ہوگا کہ اُن کے ساتھ کم سے کم میل جول رکھیں۔ …*
 بعض اوقات آپ کو اپنے والدین یا ساس سُسر کے ساتھ کُھل کر بات کرنی پڑ سکتی ہے۔‏ایسی صورت میں نرم لہجے میں بات کریں اور عزت واحترام سے پیش آئیں۔ …*

خود سے پوچھیں

 میرے ساس سُسر میں کونسی اچھی خوبیاں ہیں؟

…*

 مَیں اپنے جیون ساتھی کو نظرانداز کئے بغیر کیسے اپنے والدین کو عزت دے سکتا ہوں؟‏

…*

 

 

کاپی رائٹ © تمام جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ دارالعمل چشتیہ، پاکستان  -- ۲۰۱۴



Subscribe for Updates

Name:

Email: