سرزنش میں احتیاط
والدین کو چاہئے کہ اپنے بچوں کی تربیت واصلاح میں ایسے انداز اور
طریقے اختیار کریں جو سر ور دوعالم ﷺ نے صحابہ ؓ کی تربیت کے لئے اختیار فرمائے
تھے۔آپ ﷺ تربیتی طریقوں میں دانائی اور حکمت کو پیش نظر رکھتے تھے۔آپ ﷺایسے الفاظ
اور روش اختیار کرنے سے گریز فرماتے جس سے مخاطب کی دل شکنی ہو یا کوئی غلط تاثر
قبول کرلے۔اس میں بے اطمینانی کی کیفیت پیدا ہو یا وہ کسی غلط عمل کا مرتکب ہو
جائے۔
یوں ہی اگر کسی بچے سے کوئی غلطی سرزد ہو جائے تو والدین اسے سب بچوں کے سامنے ڈانٹ
ڈپٹ نہ کریں،بلکہ علیحدگی میں مثبت انداز میں نہایت دل سوزی اور محبت سے سمجھائیں
تاکہ نہ تو اس کے جذبات کو ٹھیس پہنچے اور نہ ہی وہ احساسِ کمتری کا شکار ہو۔
سفرِ حج میں حضرت فضل بن عباس ؓ حضور انور ﷺ کی سواری پر آپ ﷺ کے پیچھے بیٹھے ہوئے
تھے۔ایک عورت آپ ﷺ سے کوئی مسئلہ پوچھنے آئی۔وہ عورت حضرت فضل ؓ کو دیکھنے لگی
اور حضرت فضل رضی اللہ عنہ اسے دیکھنے لگے۔حضور انور ﷺ نے اپنے ہاتھ سے حضرت فضل
رضی اللہ عنہ کا چہرہ دوسری طرف کر دیا۔
(صحیح بخاری،ج ۱،ص ۵ ۲۰ کتاب المناسک)
اس موقع پر زبان سے کوئی بات کہنا مصلحت و حکمت کے خلاف تھا۔دونوں میں سے کسے مخاطب کیا جائے ؟ کن الفاظ کا استعمال کیا جائے ؟ اگر نہایت احتیاط کے ساتھ الفاظ استعمال کئے جاتے،تب بھی جذبہ خودداری کو ٹھیس لگنے کا اندیشہ تھا۔لہٰذا حضور انور ﷺؓ نے نہایت حکیمانہ طریقہ اختیار فرمایا۔
ٹی وی کی تباہ کاریاں
گھروں میں تفریح کا بڑا کام اب ٹیلی ویژن اور کمپیوٹر گیمز سے لیا
جاتا ہے۔بعض والدین تو بچوں کی تربیت کا کام بھی ٹی وی کے سپرد دیتے ہیں۔بچے ہر
دوسرے کام اور ماحول سے بے نیا زگھنٹوں ٹی وی پروگراموں کو بیٹھے دیکھتے رہتے
ہیں۔فی الواقع تفریحی پروگراموں میں سب سے زیادہ نقصان دہ، ٹی وی پروگرامز ہی
ہیں۔یہ وقت زیادہ لیتے ہیں اور اس دور ان بچوں کی نگرانی بھی نہ ہونے کے برابر ہوتی
ہے۔والدین مطمئن رہتے ہیں کہ بچے ان کی آنکھوں کے سامنے گھر کی چار دیواری میں
محفوظ ہیں۔وہ اس بات سے قطعی بے خبر ہیں کہ اس دور ان ننھے منے ذہنوں پر کیا اثرات
مرتب ہو رہے ہیں ؟ ان کی شخصیت کس سانچے میں ڈھل رہی ہے ؟ ٹی وی پروگرامز بچے پر
مثبت اورمنفی، دونوں قسم کے اثرات ڈالتے ہیں۔
اولاد کے بگاڑ میں جنسی فلموں اور جرائم سے بھرپور فلموں کا بھی ہاتھ ہوتا ہے جو نو
عمر لڑکے اور لڑکیوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بدکار،مجرم،بداخلاق اور شخصی انحطاط کا
شکار بنا دیتی ہیں۔آج کل سینما ہالوں اور ٹیلی ویژن اسکرین پر جو جاسوسی کے
کارنامے اور بے حیائی کے مناظر دکھائے جاتے ہیں،ان کا بچوں پر اچھا اثر کبھی بھی
مرتب نہیں ہوسکتا۔گندے رسالے،ناول اورجنس کو بھڑکانے والے غلیظ افسانے وغیرہ نو عمر
لڑکے اور لڑکیوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تباہ اور برباد کر دیتے ہیں۔ ان سب میں جنس،
جذبات، اخلاقی بے راہ روی اور جرائم کاری کا مواد بھرا ہوا ہے،جنہیں پڑھ لینے کے
بعد بچے تو کیا،بڑے لوگوں کے اخلاق بھی بگڑ جاتے ہیں۔
اس لحاظ سے اسلام کے نقطۂ نظر کے مطابق، والدین کی ذمہ داری اور بھی بڑھ جاتی
ہے۔ان کا فرض ہے کہ وہ اپنی اولاد کی تربیت صحیح خطوط پر کریں اور ان کے حقوق کو
پورا کریں۔
اولاد کوگندی فلموں اور گندے ناولوں سے بچا نا، والدین کے فرائض میں شامل ہے۔ان پر
یہ فرض ہے کہ خود کو اور اپنی اولاد کو ہر ایسے کام سے بچائیں جو خدا کے غضب
اوردخولِ جہنم کا سبب ہو۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’ اے مومنو!خود کو اور اپنے اہل عیال کو آتش دوزخ سے بچائو۔‘‘
(التحریم : ۶ )
اس آیت کے تقاضوں کو یوں پورا کیا جاسکتا ہے کہ جن لوگوں پر اولاد کی تربیت اور دیکھ بھال کی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں،انہیں چاہئے کہ وہ اپنی اس ذمہ داری کو کما حقہ پورا کریں اور رسول اللہ ﷺ کے اس ارشاد کا عملی نمونہ پیش کریں : ’’ ْمرد اپنے گھر میں نگہبان ہے اور اس سے اس کے بار ے میں پوچھا جائے گا ‘‘۔
(بخاری ومسلم )
کاپی رائٹ © تمام جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ دارالعمل چشتیہ، پاکستان -- ۲۰۱۴