ایک مرتبہ بابا فرید رحمہ اللہ کاایک مرید آپ کے پاس آیا۔ وہ لوہار
کا کام کیا کرتا تھا۔ آپ رحمہ اللہ کے لیے خاص قینچی بنا کر لایا اور آپ کی خدمت
مبارکہ میں حاضر ہوتے ہی عرض کرنے لگا’’ باباجی! یہ میں اپنے رزق حلال سے آپ کے لیے
ایک تحفہ لایا ہوں‘‘۔
باباجی رحمہ اللہ نے جب قینچی دیکھی تو مسکرا دیئے اور فرمایا ’’بیٹا! درویش تحفہ
رد نہیں کیا کرتے۔ البتہ جب اگلی مرتبہ آنا تو سوئی لے کر آنا‘‘۔ اب جب وہ مرید
اگلی مرتبہ حاضر ہوا تو سوئی لے کر آیا۔ آپ رحمہ اللہ کی خدمت میں سوئی پیش کی تو
آپ رحمہ اللہ نے فرمایا ’’اس مرتبہ ہم نے تمہارا تحفہ خوشی سے قبول کیا اور پسند
بھی کیونکہ قینچی کا کام کاٹنا اور سوئی کا کام سینا ہوتا ہے اور درویش کاٹنے کا
نہیں سینے کا کام کرتے ہیں۔ درویشوں کا کام محبت و الفت کے رشتوں کی بنیاد رکھنا
ہوتا ہے‘‘۔
جی ہاں! محبتوں، شفقتوں اور سچائیوں پر مشتمل ہر ایسے تعلق کا نام تصوف ہے جو بندوں
کو اپنے کریم رب کی قربت عنایت کرے۔
تصوف کی تعریفیں مختلف ادوار میں مختلف رہی ہیں۔ ہر ولی اللہ نے اس موضوع کو اپنے
اقوال اور اعمال سے ایک رونق بخشی۔ اگر یوں کہا جائے کہ تصوف اللہ سے بے غرض دوستی
اور محبت کا نام ہے تو ہم اس بات کو امام غزالی رحمہ اللہ سے کئے گئے ایک سوال کے
جواب سے بہتر انداز میں سمجھ سکتے ہیں۔
ایک مرتبہ کسی نے سوال کیا کہ’’ مسلمان اور مومن میں کیا فرق ہے؟‘‘ آپ رحمہ اللہ نے
فرمایا ’’مسلمان وہ ہے جو اللہ کو ایک مانے اور مومن وہ ہے جو اللہ کو بھی مانے اور
اللہ کی بھی مانے‘‘۔ یقینا جو اللہ کی مانے گا اللہ اسے اکیلا نہیں چھوڑے گا۔ اپنے
کرم کریمانہ سے نوازے گا۔ وہ اِنَّ اولیاء اللہ کا مصداق ٹھہرے گا۔ لاخوف علیہم
ولاہم یحزنون اس کا خاصا بن جائے گا اور بادشاہوں کے بادشاہ ،خالق و مالک کی قربت
کی لذت و چاشنی اسے دنیا کی عارضی زندگی کی بھول بھلیوں میں بھٹکنے نہیں دے گی۔
معرفت اس کا اوڑھنا بچھونا ہو گی۔ انسانیت کی خدمت اس کا مقصد ہو گا۔ وصل الی
اللّٰہ اس کی تمنا ہو گی۔ خوشنودی اور رضائے الٰہی اس کا مطمع نظر ہو گا۔ تنہائیوں
کا متلاشی ہو گا۔ شاہراہِ حیات پر ایسی قیام گاہ اس کی آرزو ہو گی، جہاں وہ ہو اور
بس اس کا خدا ہو۔ صلوٰۃ و صوم اس کا شعار ہو گا۔ اپنے محبوب کو مختلف ادائوں سے
راضی کرنا اس کا مقصود بن جائے گا۔ لائق مسجود سے رکوع و سجود میں آہ و زاری کرنا
اور اس سے ہر لمحہ قربت کی التجائیں کرنا اس کی نوکری بن جاتی ہے۔ مگر ان میں سے
کسی میں اموالکم واولادکم فتنہ کی طلب نہیں ہوتی۔ ان الابرار لفی نعیم کے مقام میں
ٹھہرنے کی لالچ نہیں ہوتی۔ ان الفجار لفی حجیم کے مقام میں دھنسے جانے کا خوف نہیں
ہوتا۔ بس فقط رب رب اور رب ہوتا ہے۔ جس کی انتہا رضی اللہ عنھم پر ہوتی ہے۔
ایک مرتبہ رابعہ بصری رحمہا اللہ ایک ہاتھ میں پانی اور ایک ہاتھ میں آگ لئے بھاگی
جارہی تھیں۔ سفیان رحمہ اللہ نے پوچھا’’ اے رابعہ! بھلا اتنی تیزی سے کہاں جارہی ہو
اور پھر ایک ہاتھ میں پانی اور ایک ہاتھ میں آگ؟ یہ معاملہ میری سمجھ میں نہیں
آرہا‘‘۔ تو فرمانے لگیں’’ آگ تو رابعہ نے اس لئے پکڑ رکھی ہے کہ اس جنت کو لگا دوں
اور جلا کر خاک کر دوں جس کی لالچ میں لوگ عبادت کرتے ہیں اور پانی اس لئے کہ اس
جہنم کو بجھا دوں جس کے خوف کی وجہ سے لوگ عبادت کرتے ہیں‘‘۔
جی ہاں! تصوف کی ایسی تعریفیں بھی ملتی ہیں مگر ان لوگوں کے لیے عبادت کا مقصد فقط
اور فقط لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم کی عزت بخشنے والے رب کی رضاء ہوتی ہے۔
مقامِ عبدیت کا شکر ادا کرنا ہوتا ہے۔ نعمتوں کا حصول نہ تو آرزو ہوتی ہے نہ ہی
مقصود۔ پھر رابعہ سجدے میں گرتی ہیں، موذن صبح کی اذان دیتا ہے، عشق الٰہی میں اس
قدر مستغرق کہ اٹھ کر اپنے کریم عزوجل سے شکوہ کرتی ہیں۔ بھلا دیکھو تو سہی شکوہ
کیا ہو رہا ہے کہ’’ اے میرے رب! تو نے رات اتنی چھوٹی بنائی ہے کہ رابعہ کا ایک
سجدہ پورا نہیں ہوتا‘‘۔ ادھر اویس قرنی رحمہ اللہ ہیں ۔عشق رسول ﷺ کے لیے جان کا
نذرانہ پیش کرنے کو تیار ہیں۔ جب حبیب ﷺ کے محب عزوجل کی بارگاہ میں حاضر ہوتے ہیں
،کیا خوب کہتے ہیں’’ آج کی رات رکوع کی رات، آج کی رات عبادت کی رات‘‘۔ اور پھر
پوری رات اس ایک ادا میں خدا کو راضی کرتے کرتے صبح ہو جاتی۔
بہرحال ،عبادات کی وسیع دنیا میں بھی یہ مقام ہے۔ دوسری طرف اخلاقِ حسنہ بھی ان
لوگوں کا شعار تھا۔ اویس قرنی رحمہ اللہ کو بچے پتھر مارتے ہیں تو فقط یہ آواز بلند
ہوتی ہے’’ بچوں! اویس کو آہستہ آہستہ پتھر مارو۔ اگر خون نکل آیا تو تمہارے رب کو
کیسے راضی کروں گا؟‘‘ آزمائشوں تکلیفوں کے سمندر کے سمندر پی جانا ،جبر و صبر کی
جنگ میں صبر کو فتح دلوانا، ان لوگوں کے اخلاق ہیں۔
ایسے نفوس مکارمِ اخلاق کے پیکر ہوتے ہیں۔ ان کے صبر اور نفس پر جبر کی مثالیں قائم
ہوئیں ہیں۔ تزکیہ نفس اور تعمیر ظاہر و باطن ان کا مقصد ہوتا ہے۔ دلوں کے ویرانوں
کو صاف شفاف کرنا، پھر اسے رحمن کا گھر بنانا، ان کی حیاتِ جاوداں کا مقصود ہوتا
ہے۔ حقیقی خالق و معبود ہی ظاہر و باطن میں ان کا مسجود ہوتا ہے۔ خدا کے بندوں سے
پیار، ان کی خدمت میں عظمت، ان کا روحانی درس ہوتا ہے۔ جی ہاں! ایسے لوگ ہی حقیقی
صوفی کہلاتے ہیں۔
ہمارا مقصد اپنی زندگی کو کامیابی سے ہمکنار کرنا ہے۔ اولیاء اللہ کے اقوال ذکر
کرنے کا مقصود ہی یہ تھا کہ ایک تو اس وہم کا ازالہ ہو جائے کہ ولایت کسی کونے میں
گندگی کے ڈھیر پر پڑے رہنے اور نشہ کرنے کا نام نہیں ہے جو ہمارے سیکولرازم سے
متاثر احباب کی سوچ ہے۔ دوسرا یہ بات عیاں ہو جائے کہ اگر کوئی دنیا کی رنگینیوں کو
ٹھوکر مارتا ہے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ غریب ہے۔ بلکہ وہ فقر کی علامت ہے
اور فقر کے متعلق فرمان رسول ﷺ ہے ’’الفقر فخری ‘‘اور فقر کا مفہوم سمجھنے کے لیے
ابتدائی سطح پر ایک جملہ کافی ہے’’ فقر دنیا سے مستغنی ہونے کا نام ہے‘‘۔
ایک مرتبہ بادشاہ محمود غزنوی رحمہ اللہ نے اپنے دربار کی فضا میں چندسِکّے اچھالے
تو تمام درباری ان کو اکٹھا کرنے لگے اور چونکہ جو جتنے چن لیتا ،وہ اسی کے ہوتے،
تو جب سب درباری سِکّوں کی طرف لپکے، محمود غزنوی رحمہ اللہ کا غلام ایاز، محمود
غزنوی رحمہ اللہ کے قریب ہی کھڑا رہا اور سکے چننے کے لیے آگے نہ بڑھا۔ بادشاہ نے
پوچھا’’ اے ایاز! کیا تجھے سِکّوںکی ضرورت نہیں؟‘‘ تو ایاز کہنے لگا ’’نہیں!جب
بادشاہ میرا ہے تو پوری سلطنت میری ہی ہے‘‘۔ ایاز کی اس دانشمندی پر بادشاہ حیران
رہ گیا کیونکہ ایاز کی اس بات نے بادشاہ کا دل جیت لیا تھا۔
اگر یہی توکل انسان کے پاس آجائے تو توکل علی اللہ کی اس عظمت کی وجہ سے وہ بلند
مرتبہ ہو جائے۔ اس کے اعلیٰ وقار کی وجہ بن جائے۔ یقینا جو اپنے ربّ عزوجل پر اسی
درجہ کا توکل رکھے گا اور ظاہر و باطن دونوں حال سے اس کا اظہار بھی کرے گا تو
لازماً اس کا رب بھی اسے عزتوں سے نوازے گا اور دنیا اس کی محتاج ہو گی۔ کیونکہ اس
کی دوستی بادشاہوں کے بادشاہ کے ساتھ ہو گئی ہے۔ اس لئے وہ دنیا پر، اس کی رنگینیوں
پر، وصل کے لمحوں کو ترجیح دے گا۔ ہر وقت حالت نماز میں رہنا اس کی حقیقی لذت کا
حصول، اس کی روح کی غذا بن جائے گا۔ سجدوں میں آہ و زاری کرنا، اپنی کمزوری کا
اعتراف اور اس کی عظمتوں کا نعرہ لگانا، اللہ اللہ کی صدائے دلنواز سے خود کو رطب
اللسان رکھنا، اس کا قلبی چین بن جائے گا۔ اور اگر یہ سب کچھ میسر آجائے تو شاہی سے
فقیری تک کا سفر کچھ مشکل نہ رہ جائے گا۔ بہرحال یہ ہی حقیقی کامیابی ہے۔ کامیاب
زندگی گزارنے کے لیے کامیاب لوگوں کے رہنما اصول اپنانے بہت ضروری ہوتے ہیں۔
ان ہی کامیاب لوگوں کے وہ اقوال، جن پر عمل نہ صرف ظاہری سکون میسر کرتا ہے بلکہ
باطن بھی روشن کر دیتا ہے۔ ان کو اپنی کتاب میں راقم نے ذکر کر دیا ہے اور اس کتاب
کا نام اسی وجہ سے ’’کامیاب زندگی …اقوال اولیاءؒ کی روشنی میں‘‘ رکھا گیا ہے۔
آج اگر امت محمدی ﷺ پر نظر ڈالی جائے تو یہ ٹوٹی ہوئی تسبیح کے دانوں کی طرح بکھری
اور سمندر کی جھاگ کی طرح کمزور نظر آتی ہے۔ مسلمان کا ہاتھ اور اس کا اپنا ہی
گریبان ہے۔ یہ امت، اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے کی بجائے اغیار کے قدموں میں
سربسجود ہے۔ ان حالات کو دیکھ کر ہی تو مفکر اسلام کا قلم یہ لکھنے پر مجبور ہو
گیا۔
؎’’تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب کیوں نہیں ہے؟‘‘
اگر ہم ماضی میں جھانکنے کی ذرا ہمت کریں تو ہمارے اسلاف ’’شہادت ہے مطلوب و مقصودِ
مومن‘‘ کے علمبردار دکھائی دیتے ہیں۔ کبھی ابراہیم علیہ السلام بن کر آتش نمرود میں
کود جاتے ہیں تو کبھی موسیٰ علیہ السلام بن کر فرعون سے ٹکراتے ہیں۔ کبھی حسین رضی
اللہ عنہ بن کر یزید کے سامنے کلمہ حق کہتے ہیں تو کبھی سرزمین سندھ پر پرچم اسلام
لہراتے ہیں۔ کبھی ساحل اندلس پر کشتیاں جلاتے ہیں تو کبھی شہدائے کارگل بن کر قوم
کی حفاظت کا حق ادا کرتے ہیں۔
لیکن آج جو کرب ناک مناظر دیکھنے میں آرہے ہیں، ان کی وجہ فقط یہ ہے کہ ہم نے اپنے
اسلاف کے دیئے اسباق اور ان سے حاصل کارناموں کو بھلا دیا ہے۔ اگر آج بھی ہم ان
اسباق کو دوبارہ یاد کریں اور عمل پیرا ہو جائیں تو پھر سے شاہی ہمارے قدموں میں
ہو۔ دنیا کے تمام انسان ہمیں سلوٹ (سلام) کریں۔ اسی لیے میں نے اپنی کتاب مذکورہ
میں صرف ان اقوال کو ذکر نہیں کیا، جن کا تعلق باطنی و روحانی دنیا سے ہے بلکہ ان
اقوال کو بھی خصوصیت کے ساتھ ذکر کیا ہے جن کا تعلق ہماری ظاہری زندگی سے بھی ہے۔
جیسے چند اقوال بطور امثلہ درج ذیل ہیں:
فخر : فخر اس میں ہے کہ
اپنے تھوڑے سے مال پر قانع رہ کر دوسرے کی ملکیت پر نظر مت رکھو۔ (حضرت اویس قرنی
رحمہ اللہ)
بہترین صبر : بہترین صبر وہ ہے جس میں لوگوں سے شکایت نہیں کی جاتی۔
(بشر بن حارث رحمہ اللہ)
جوہر: ہر شے کا ایک جوہر ہوتا ہے جبکہ انسان میں جوہر عقل ہوتا ہے اور عقل کا جوہر صبر کرنا ہوتا ہے۔
(حارث عاسی رحمہ اللہ)
وقت: جب کسی کا وقت نکل جائے
تو دوبارہ حاصل کرنا ناممکن ہوتا ہے۔ حالانکہ اس وقت سے زیادہ قیمتی کوئی چیز نہیں
ہوتی۔ (حضرت جنیدرحمہ اللہ)
اخلاق : تصوف نہ تو رسمیں ہیں، نہ ہی کسی علم کا نام ہے بلکہ یہ اخلاق عالیہ ہیں۔
(حضرت نوری رحمہ اللہ)
منزل کا تعین: منزل کا تعین کرو۔ بغیر منزل کے تھک کر چور ہو جائو گے لیکن حسرت کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔
(حضرت ضیاء الامت رحمہ اللہ)
غیر تربیت یافتہ مبلغ: ایک نادان اور غیر تربیت یافتہ مبلغ اپنی دعوت کے لیے اس دعوت کے دشمنوں سے بھی زیادہ ضرر رساں ہو سکتا ہے۔
(حضرت ضیاء الامت رحمہ اللہ)
غیبت کا کفارہ: غیبت کا بہترین کفارہ یہ ہے جس کی غیبت کی ہے، اس سے معافی طلب کرے۔
(خواجہ حسن بصری رحمہ اللہ)
دیوانہ و فرزانہ: دیوانہ وہ ہے جو بغیر منزل کے چلتا رہتا ہے اور فرزانہ وہ ہے جس کا ہر قدم منزل کی طرف اٹھتا ہے۔
(حضرت ضیاء الامت رحمہ اللہ)
ان مذکورہ اقوال کو بیان کرنے کا مقصد یہی ہے کہ یہ بات عیاں ہو جائے کہ اللہ والوں کی اقتداء و پیروی، نہ صرف اخروی زندگی کو سنوارتی ہے بلکہ اس ظاہری زندگی کو بھی خوبصوت بنا دیتی ہے۔ پھر بندہ اپنی آزمائشوں کا واویلا کرنے کی بجائے دوسروں کے مصائب دور کرنے میں مصروف ہو جاتا ہے۔ اس کے بول، اس کی گفتگو، کامیابی کے رہنما موتی بن کرنکلتے ہیں اور اس کی دواء اور دعا حتمی شفاء بن جاتی ہے۔
اپنے رب کریم عزوجل کی بارگاہ لم یزل میں ملتمس ہوں کہ وہ اپنے حبیب
کریمﷺ کے صدقے، اس کاوش کو ہر عام و خاص کے لیے نافع بنائے۔ اور میرے قلم اور اس کے
لکھے کو اپنی بارگاہ میں درجہ قبولیت عطاء فرمائے۔
آمین ،بجاہ النبی الکریم ﷺ۔
کاپی رائٹ © تمام جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ دارالعمل چشتیہ، پاکستان -- ۲۰۱۴