لقد کان لکم فی رسول اللّٰہ اسوۃ حسنۃ (سورۂ احزاب

ترجمہ : ’’ یقینا تمہارے لیے رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ میں اچھا نمونہ ہے‘‘۔ آج تک جتنے بھی انبیاء کرام علیہم السلام اس دنیا میںتشریف لائے، ان کی زندگیاں تمام انسانوں کے لیے مشعل راہ ہیں۔ ہم آخری نبی ﷺکی آخری اُمت ہیں اس لئے اب قیامت تک ہمارے لئے مثالی اور قابلِ تقلید زندگی جو تمام زندگی کے شعبوں پرمحیط ہے، وہ صرف اور صرف نبی آخر الزمان سیدنا محمد ﷺ کی پاکیزہ اور مبارک زندگی ہے۔

جن لوگوں نے آپ ﷺ کی حیات مبارکہ اور آپ کے بعد آپ ﷺ کے نظامِ حیات کو اپنایا تو وہ دنیا اور آخرت میں کامیاب وکامران ہوئے اور جنہوں نے اس نظام کو پسِ پشت ڈال دیا، وہ لوگ توہمارے سامنے ہیں۔ جو ہر طرح کی ضرورت کے لیے غیرمسلموں کے ہاتھوں کی طرف دیکھتے ہیں۔
 

آج اگرمسلمان قوم تباہی وبربادی کی طرف گامزن ہے تو اس کی سب سے بڑی اوراہم وجہ ایک ہی ہے اور وہ سنتِ نبویﷺ سے ہماری دوری ہے۔ لوگوں نے خود کو مختلف فرقوں میں بانٹ لیا اور اس کو اپنی پہچان بنا لیا لیکن ایک بات جو ہمیشہ میرے ذہن میں رہتی ہے کہ لوگ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ ہم سب مسلمان ہیں؟ کیونکہ نبی کریم ﷺ کا کوئی فرقہ نہ تھا، وہ بھی تو مسلمان تھے اور ان کا دین اسلام تھا۔ پھرہم کیوں فرقوں میں مبتلا ہو کرایک دوسرے سے نفرت کرتے ہیں ؟

ہمارا دینِ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے اور آپ ﷺ کی سنت ہمارے لیے اچھا نمونہ ہے تو کیوں نہ ہم قرآن اور سنت نبویﷺ کے مطابق چل کر ٹھیک ہو جائیں۔ کیوں نہ تمام فرقوں اور گروہوں کو چھوڑ کر سچے مسلمان بن جائیں کیونکہ اس میں دنیا اور آخرت کی کامیابی ہے۔ اس افراتفری کے دور میں، جب ہر انسان سکون کی تلاش میں مارا مارا پھررہا ہے، وہ سکون کے لیے ہر برُے سے برُ ے طریقے اپنانے کو تیار ہے۔

اکثر لوگ تو یہ کہتے ہیں کہ موسیقی روح کی غذا ہے جبکہ روح کی غذا صرف اللہ کا ذکر ہے۔ تجربہ کرکے دیکھ لیں کہ جتنا سکون اللہ کاذکر اور اس کی عبادت کرنے میں ہے، دنیا کی کسی چیزمیں نہیں۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ (ترجمہ ) ’’سُن رکھو! دلوں کا اطمینان تو اللہ کے ذکر میں ہے‘‘۔ ہم دنیا کو حاصل کرنے کے لئے سخت محنت کررہے ہیں اور آخرت کو مقدر پر چھوڑ بیٹھے ہیں لیکن دنیا تومقدر سے ملتی ہے اورآخرت کی طرف جانے کے لیے مسلسل محنت کی ضرورت پڑتی ہے۔

کہتے ہیں کہ دنیا سے ہر کوئی خالی ہاتھ جائے گا۔ میرے نزدیک یہ بات غلط ہے۔ وہ مال واسباب سے خالی جائے گا اور عمل کے اعتبار سے نہیں۔ دنیا تو آخرت کی کھیتی ہے۔ جو اس دنیا میں بویاجائے گا،وہ آخرت میں کاٹنا پڑے گا۔ آخرت کی زندگی میں تو صرف فیصلہ ہو گا کہ ہم دنیا سے کیالائے ؟ اگر ہم نیک اعمال لے کرجائیں گے تو کامیاب ہوں گے اور اگر خالی ہاتھ جائیں گے تو صرف فیصلہ ہو گا اور سزا مقدر بن جائے گی۔ مثال کے طورپر ہم اپنے بچوں کو سکول کا ہوم ورک تو بڑی توجہ سے کراتے ہیں، ٹیوشن پربھیجتے ہیں تاکہ ہمارے بچے کامیاب ہوں اور ان کا استاد ان کو سزا نہ دے۔ لیکن وہ ہوم ورک جوہمارے مالک نے ہمیں دیا، اس پرتو کوئی توجہ نہیں دیتے اورنہ اس کے لیے ٹیوشن لیتے ہیں۔ کیا اس مالک یا استاد کاہمیں خوف نہیں کہ اگر ہم وہاں کامیاب نہ ہوئے تو ذلت وناکامی ہمارا مقدر بن جائے گی؟

اللہ تعالیٰ نے ہمیں قرآن مجید جیسی مقدس اور پاکیزہ کتاب عطا کی ہے اور نبی کریم ﷺ اس کا عملی ثبوت ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا تھا کہ’’ میں تم لوگوں میں دو ایسی چیزیں چھوڑ کرجارہا ہوں کہ اگر تم ان پرعمل کرو گے تو کامیاب رہو گے۔ اور وہ ہیں کتاب اللہ اور سنت‘‘۔ تو کیا ہم ان پر عمل کررہے ہیں ؟ کیا ہم جونماز پڑھتے ہیں اس طرح نماز پڑھنے کا حق اداہو جاتا ہے؟ کیاہم روزہ اور حج خالص اللہ کے لیے کرتے ہیں ؟بہت سے لوگ بلکہ اکثر تو صرف دکھاوے کے لیے ہر کام کرتے ہیں۔ ایک چیز جوہم میں سب سے زیادہ ہے، وہ ہے شرک۔ جب ہم شرک کرتے ہیں، خواہ وہ کسی بھی صورت میں ہو، تو ہم لوگوں کو پتہ بھی نہیں ہوتا کہ وہ شرک ہے جیسے کہ قبروں پر جا کرانہیں پوجتے ہیں او ر تمام حاجات مُردوں سے مانگتے ہیں۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’ اس شخص سے بہکا ہوا انسان اورکون ہو گا جو اللہ کو چھوڑ کر ان کو پکارے جو قیامت تک انہیں جواب نہیں دے سکتے۔‘‘ تو اگر آج ہم اپنا موازنہ کریں گے کہ ہم کہاں تک عمل کررہے ہیں؟ اورعمل نہ کیا تو تباہی وبربادی ہمارا مقدر ہو گی۔
 
 

 

کاپی رائٹ © تمام جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ دارالعمل چشتیہ، پاکستان  -- ۲۰۱۴



Subscribe for Updates

Name:

Email: