حضرت انسؓ سے مروی ہے انہوں نے کہا میں نے حضورﷺ سے عرض کیا’’ یا رسول اللہ ﷺ! میں ایک ر وٹی خیرات کروں۔ آپ ﷺ کے نزدیک یہ زیادہ پسندیدہ ہے یا یہ کہ سورکعت نماز پڑھوں؟‘‘ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’ ایک روٹی کا خیرات کرنا میرے نزدیک دو سورکعت نفل نماز سے زیادہ پسندیدہ ہے‘‘۔ پھر میں نے عرض کیا ’’ایک لقمہ حرام کاچھوڑنا آپ کے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہے یا ہزار رکعت ادا کرنا؟‘‘ آپﷺ نے فرمایا: ’’ایک لقمہ حرام کاچھوڑنا میرے نزدیک دوہزاررکعت نفل نماز سے بھی زیادہ پسندیدہ ہے‘‘۔ پھر میں نے کہا’’ یا رسول اللہ ﷺ! غیبت کاچھوڑنا آپ کوزیادہ پسند ہے یا دو ہزار رکعت ادا کرنا؟‘‘ آپﷺ نے فرمایا: ’’ غیبت کاچھوڑنا تومیرے نزدیک دس ہزار رکعت نفل سے بھی زیادہ پسندیدہ ہے‘‘۔ حضرت انسؓ نے کہا ’’بیوہ کی حاجت کاپورا کرنا آپ کوزیادہ پسند ہے یا دس ہزار رکعت ادا کرنا؟‘‘ آپﷺ نے فرمایا: ’’بیوہ کی حاجت کا پورا کرنا میرے نزدیک تیس ہزار رکعت نفل سے بھی زیادہ پسندیدہ ہے‘‘۔ پھر میں نے کہا’’ یارسول اللہ ﷺ! اپنے اہل و اعیال کے ساتھ بیٹھنا افضل ہے یا مسجد میں بیٹھنا؟‘‘ آپ ﷺنے فرمایا :’’اپنے اہل وعیال کے ساتھ ایک ساعت بیٹھنا میرے نزدیک میری اس مسجد میں اعتکاف کرنے سے بھی افضل ہے‘‘۔ پھر میں نے کہا ’’اپنے اہل و عیال پرخرچ کرنا آپ کے نزدیک افضل ہے یا راہِ خدا میں خرچ کرنا‘‘۔ آپﷺ نے فرمایا:’’تمہارا ایک درہم اپنے اہل وعیال پرخرچ کرنا میرے نزدیک راہِ خدا میں ایک اشرفی کے خرچ کرنے سے افضل ہے‘‘۔ پھر میں نے کہا ’’یا رسول اللہ ﷺ! اپنے والدین سے سلوک کرنا آپ کے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہے یاہزار برس کی عبادت؟‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا’’ اے انس! جاء الحق وزھق الباطل ان الباطل کان زھوقا(یعنی حق آیا اور باطل مٹ گیا بیشک باطل مٹنے والا ہے)۔والدین سے سلوک کرنا میرے اور خدا کے نزدیک دو ہزار برس کی عبادت سے بھی زیادہ پسندیدہ ہے‘‘۔

حضرت ابوذر ؓ نے حضور ﷺ سے عرض کیا ’’یا رسول اللہ ﷺ! مجھے کچھ وصیت کیجئے‘‘۔ آپ ﷺ نے فرمایا:’’ میں تمہیں خدا سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں کیونکہ یہ سارے امور کی اصل ہے ‘‘۔ میں نے عرض کیا ’’یارسول اللہ ﷺ! اور وصیت کیجئے‘‘۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تلاوتِ قرآن اور ذکر اللہ اپنے اوپر لازم کر لو کیونکہ زمین میں یہ تمہارے لئے نور ہو گااور آسمان میں تمہارے ذکرویاد کاباعث ہو گا‘‘۔ میں نے عرض کیا ’’یارسول اللہ ﷺ !اور وصیت کیجئے‘‘۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’زیادہ ہنسنے سے پرہیز رکھا کرو کیونکہ یہ دل کو مردہ کردیتا ہے اور چہرہ کانور دور کردیتا ہے‘‘۔ میں نے عرض کیا ’’یارسول اللہ ﷺ !اور وصیت کیجئے‘‘۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’حق بات کہا کرو، اگرچہ تلخ ہو‘‘۔ میں نے عرض کیا’’اور کچھ وصیت کیجئے‘‘۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’خدا کے بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کااندیشہ نہ کرو‘‘۔ میں نے عرض کیا ’’اور وصیت کیجئے‘‘۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’خاموش زیادہ رہا کرو کیونکہ زیادہ خاموشی شیطان کو بھگاتی ہے اور تمہارے دین پرتمہاری مدد گار ہوتی ہے‘‘۔

نبی کریم ﷺ کے درج بالا تمام ارشادات صرف پڑھنے کےلئے نہیں بلکہ اپنی زندگی میں اپنانے کے لئے ہیں۔ہر ارشاد کو بغور اور بار بار پڑھیں اور اپنا جائزہ لیں کہ کیا آپ کا اس ارشاد پر عمل ہے؟ اگر نہیں تو آج سے عزم کر لیں کہ اس ارشاد پر لازمی عمل شروع کریں گے۔اور صرف اپنے لئے ہی نہیں، اپنے اہل و عیال کو بھی ان پر عمل کروائیں گے۔

موجودہ دور کے والدین کی حد سے زیادہ یہ کوتاہی دیکھنے میں آ رہی ہے کہ بچوں کو آپﷺ کے قیمتی ارشادات نہیں سناتے اور نہ ہی سمجھاتے ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر آپﷺ کی اہمیت اور آپﷺ کے انمول ارشادات کی اہمیت نہیں بتاتے۔ اسی وجہ سے دیگر افراد کے اقوال تو ان کو معلوم ہوتےہیں، مگر نبی کریم ﷺ کے نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت عطا فرمائیں۔
 

 

کاپی رائٹ © تمام جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ دارالعمل چشتیہ، پاکستان  -- ۲۰۱۴



Subscribe for Updates

Name:

Email: