یہ تحریر آپ کوکامیابی کی طرف

قدم بڑھانے میں مدد دے گی

اس دنیا میں کون ہے جو ناکامیوں سے دوچار نہیں ہوتا۔ جب بھی کوئی کام بگڑتا ہے، دل کو بہت دکھ ہوتا ہے۔ مگر اس دکھ کو جی کاروگ بنالینا بھی درست نہیں۔ ماضی کی ناکامیوں اوران کی ناخوشگوار یادوں کی زنجیروں کو اتار پھینکنے میںہی دانش مضمر ہے۔ گزری ہوئی تلخ باتوں کو مستقبل کی خوشیوں کے لیے خام مال کے طورپر استعمال کرنے کانام ہی زندگی ہے۔ جو لوگ کامیابی کی ذہنیت رکھتے ہیں، وہ ماضی پر کڑھنے کی بجائے اپنے حال کی خامیوں کو دور کر کے ان سے سبق سیکھتے ہیں۔

میں نے بچپن وائز کائونٹی، ورجینیا میں گزارا تھا۔ میں نے ایک بار ریفل ٹکٹ خریدا جو صرف 25سینٹ کاتھا۔ خوش قسمتی ( یا بدقسمتی؟) سے انعام میں گھوڑا نکل آیا۔ گائوں میں رہنے والے کو گھوڑا مل جائے ! اس سے بڑی خوشی کس بات کی ہو سکتی تھی؟ میں بھی خوشی سے پھولا نہیں سمارہا تھا۔ گھوڑے کو لے کرمیں گھر پہنچا۔ اسے خوب جی بھر کر چارہ کھلایا۔ گھوڑا بھی جیسے کئی دن کا بھوکا تھا، کھاتا چلاگیا۔ اس کے بعد اس نے قریبی تالاب سے خوب سیر ہو کر پانی پیا۔ بس پھرکیا تھا، اس کی طبیعت بگڑ گئی اور چند ہی گھنٹوں میں اسے موت نے آلیا۔ اس کی تدفین کے انتظامات پرپانچ ڈالر خرچ ہوئے۔ گھوڑا مرا سو مرا، ساتھ ساتھ میرے مزید پانچ ڈالر لے گیا۔ اس واقعے کو نہ صرف یہ کہ میں نے بھلا دیا بلکہ پھرکبھی لاٹری کا ٹکٹ نہیں خریدا۔ یوں میں نے کئی گھوڑوں کی تدفین کے اخراجات سے اپنے آپ کو بچالیا۔ انعام میں نکلا ہوا گھوڑا مرکر مجھے یہ پیغام دے گیا کہ انسان کو صرف اپنے زورِ بازو پر ہی بھروسہ کرناچاہیے۔

مصیبت رحمت ہے

آپ کے لیے شاید یہ بات بہت حیرت انگیز ہو مگر حقیقت یہی ہے کہ ہر مصیبت، ہر مشکل، ہر بحران کے پردے میں قدرت نے آپ کے لیے سکھ رکھا ہے۔ اگر آپ کے پاس دیکھنے والی آنکھ ہے تو کسی بھی پریشان کن صورتحال میں پنہاں خوشی آپ کو بھی دکھائی دے سکتی ہے۔

یاد رکھئے کہ دولت اور ذہنی سکون کی منزل کی جانب لے جانے والا راستہ ماضی کی ناخوش گوار یادوں کے قبرستان سے ہو کر نہیں گزرتا۔
جو لوگ ہر معاملے میں حالات کارونا روتے ہیں اورنوحہ گری کو اپنی عادت بنالیتے ہیں، ان کے خیالات سے تازگی ختم ہو جاتی ہے۔ وہ بہت محدود ہو کر سوچنے لگتے ہیں۔ان کے جذبات اور احساسات بھی اس سے متاثر ہوتے ہیں۔
ہر انسان بہت سی ناکامیوں سے دوچار ہوتا ہے۔ اگر ناکامیوں پر کڑھتے رہنے کی عادت بنا لی جائے تو پھر اور بہت سی اہم سرگرمیوں کے لیے وقت نہیں بچتا۔ ہر ناخوش گوار یاد کومٹانے کاآسان ترین طریقہ یہ ہے کہ اسے وقت کے سپرد کردیاجائے۔

وقت جادو گر ہے

دکھ، مصیبت، پریشانی…ہر ایک عارضے کا بہترین تدارک ’’وقت‘‘ ہے۔گزرتا ہوا وقت ہر شے کو اپنے ساتھ لے جاتا ہے۔ ناخوش گوار یادیں، وقت گزرنے کے ساتھ ہی مٹتی ہیں۔ اگر انسان گزرے ہوئے واقعات پر جلنا اور کڑھنا چھوڑ دے تو رفتہ رفتہ وقت آپ کاحامی ہو جاتا ہے۔ یہ وقت ہی ہے جو بیتے دنوں کی یادوں کوآپ کے ذہن سے مٹاکر خوشیوں کی راہ ہموار کرتا ہے۔

ابراہم لنکن نے اسٹور کیپر کی حیثیت سے کام کیا اور ناکام رہے۔ ایک انجینئرنگ بیورو میں انہوں نے کام کیا تو اتنے ناکام رہے کہ ان کا قرضہ شیرف نے سروے کے آلات فروخت کرکے ادا کیا۔ تنگ آکر انہوں نےخانہ جنگی میں انڈین نسل کے لوگوں سے مل کر لڑنے کا فیصلہ کیا۔ وہ کپتان بنے ،مگر کارکردگی بہت خراب رہی اور آخر کار انہیں گھر بھیج دیا گیا۔ انہوں نے جس لڑکی سے محبت اور منگنی کی، وہ مرگئی۔ یہ غم انہیں لے بیٹھا۔ مگر بہت جلد انہوں نے خود کو سنبھالا، انہوں نے وکالت شروع کی اور رفتہ رفتہ کامیاب ہوتے چلے گئے اور دنیا نے دیکھا کہ آگے چل کروہ امریکا کے صدرمنتخب ہوئے۔ اگر انہوں نے ناکامیوں سے مایوس ہو کر کوششیں ترک کردی ہوتیں تو آج انہیں کوئی نہ جانتا۔
مشکل حالات ہی انسان کو اپنی صلاحیتوں سے آگاہ ہونے کی ترغیب دیتے ہیں۔ جس طرح آگ میں تپ کر سونا کندن بنتا ہے، بالکل اسی طرح بحرانی کیفیت صلاحیتوں اور استعداد کے لیے آزمائش کاموقع فراہم کرتی ہے۔

ایک دروازہ بند ہونے پر

جب کبھی کسی کو نوکری سے نکالا جاتا ہے، تب یہ جملہ ضرور سننے کو ملتا ہے۔ فرض کیجیے، آپ کو بلاجواز نوکری سے نکال دیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کے نتیجے میں سابق آجر کے لیے آپ کے دل میںغصہ بھی ہے اور نفرت بھی۔ آپ کی باتوں سے یہ غصہ چھلک پڑتا ہے اور کیوں نہ چھلکے کہ یہ فطری بات ہے۔ آپ نئی نوکری کی تلاش میں ہیں مگر کامیاب نہیں ہو پارہے۔کون سی چیز آپ کی راہ میںدیوار بن رہی ہے ؟ سابق آجر کے لیے آپ کے دل میں جو نفرت ہے، جو غصہ ہے، وہی آپ کی راہ مسد ود کررہا ہے۔ کوئی بھی آجر ایسے کسی بھی شخص کوملازم رکھنا پسند نہیں کرے گا، جس کے دل میں سابق آجر کے لیے نفرت ہو کیونکہ وہ جانتا ہے کہ ایسا شخص اپنی کڑوی کسیلی باتوں سے دفتر کے ماحول کو گندا کرے گا ۔

اگر آپ کہیں ملازمت کرتے ہیں تواس بات کو ہمیشہ ذہن میں رکھئے کہ وقتاً فوقتاً دل دکھانے والی باتیں ہوتی رہیں گی۔ آجر صاحبان اپنے مفاد کے لیے ملازمین کے مفاد کو زد میں لانے سے عام طور پر گریز نہیں کرتے۔ اس کھیل میں یہ ہوتا رہتا ہے۔ انسانی مزاج کچھ ایسا ہی واقع ہوا ہے۔ آپس کے تعلقات سے تھوڑی بہت خراشیں تو آتی ہی ہیں۔ اگر آپ خواہ مخواہ ان خراشوں کو کریدتے رہیں گے تو انہیں مکمل زخم اور پھرنا سور بننے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔

اگر آپ اپنے آپ کو ضائع ہونے سے بچانا چاہتے ہیں تو جلد ازجلد ان منفی باتوں سے چھٹکارا حاصل کیجئے۔
 

 

کاپی رائٹ © تمام جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ دارالعمل چشتیہ، پاکستان  -- ۲۰۱۴



Subscribe for Updates

Name:

Email: