اردو کالج کے پروفیسر ظفر صاحب نے اپنا ایک واقعہ مجھ سے بیان کیا۔ انہی کی زبانی سنئے۔ ’’ مجھے ایک دوست ساڑھے پانچ نمبر کو رنگی میں ایک پیر صاحب کے ہاں لے گئے۔ پیر صاحب کا نام پیر چاند شاہ قلند ر تھا۔ ان کے متعلق مشہور تھا کہ ان کی ایک آنکھ میں مکہ اور دوسری آنکھ میں مدینہ نظر آتا ہے۔ میرے دوست جوپیر صاحب کے انتہائی معتقد تھے، مجھے اصرار کرکے زیارتِ مکہ ومدینہ کے لئے لے گئے۔ جب میں خانقاہ میں داخل ہوا، محفل سماع جاری تھی۔ محفل جھوم رہی تھی اورنذرانے کے بہانے پیر کے ہاتھ چوم رہی تھی۔ پیر صاحب کی نگاہ اس حقیر پر پڑی۔ برجستہ فرمایا ’’ظفر ادھر تشریف لائیے‘‘۔ میں حیران پریشان کہ پیر صاحب سے جان نہ پہچان لیکن موصوف میرے نام سے کیسے واقف ہوگئے؟ میں دوست کے ہمراہ پیر صاحب کے قریب پہنچا۔ پیر صاحب اٹھ کر کھڑے ہوگئے اور بہت زور سے مجھے سینے سے لگا کر رقص کرنے لگے۔ پوری محفل رقص کرنے لگی۔ جب کچھ دیر بعد جوش وجذبات معمول پر آنے لگے توارشاد ہوا کہ ’’آپ بھی خالی تو نہیں ہیں۔ جو کمی تھی ہم نے پوری کردی‘‘۔
لنگر کے بعد میں نے زیارت مکہ ومدینہ کی درخواست کی۔ ارشاد ہوا’’زیارت کے لئے مرید ہونا شرط ہے‘‘۔ میں فوراً اٹھا اور ایک ڈبہ مٹھائی کا اور ایک ہار پیر صاحب کے لئے لے آیا۔ پیر صاحب نے مجھے اپنا مرید کرلیا۔ سارے معمولات اور اذکار ووظائف ترک کرنے کاحکم دیا۔ فرمایا کہ ’’صرف پیر چاند شاہ قلند ر کا ورد صبح شام کریں بلکہ ہر وقت پڑھتے رہیں‘‘۔ اس کے بعد زیارت کی منزل آئی۔ پیر صاحب نے پہلے اپنی داہنی آنکھ کودونوں انگلیوں سے چیر کر کہا کہ’’ دیکھو اس میں مدینہ ہے‘‘۔ پھر بائیں آنکھ، بھاڑ کی طرح کھول کر بولے،’’ غور سے دیکھو! اس میں مکہ ہے‘‘۔ اس عاجز نے درود شریف کا ورد کرتے ہوئے زیارت کی بھرپور کوشش کی، مگر ایک آنکھ میں وحشت اوردوسری آنکھ میں دہشت وحیرانی کے سوا کچھ اورنظر نہ آیا۔
میرانام ان کو کس طرح معلوم ہوا؟ اس کا انکشاف اس طرح ہوا کہ میرے دوست نے فون پرنام بتادیا تھا جسے اس شعبدے باز جعلی پیر نے بھری محفل میں اپنی غیب دانی کے اظہار کا ذریعہ بنایا۔ یہ شعبدے اور جاہل عوام کی عقیدت مندی دیکھ کر بے ساختہ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کا یہ شعر زبان پر آگیا۔
خداوند یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں
کہ سلطانی بھی عیاری ہے درویشی بھی عیاری
کاپی رائٹ © تمام جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ دارالعمل چشتیہ، پاکستان -- ۲۰۱۴