درویش کی بد دعا
حضرت مفتی الٰہی بخش صاحبؒ رحمۃ اللہ علیہ نے دہلی کے زمانہ ٔ قیام کے چند عجیب وغریب واقعات نقل کیے ہیں۔
شاہ جہاں آباد دہلی کے نواح میں بیروں کے ایک باغ میں ایک درویش
کاگذر ہوا۔ اس وقت بیر لگے ہوئے تھے اور پھل آرہاتھا۔ اس درویش نے باغبان سے بیر
مانگے۔ باغبان نے ترش روئی کے ساتھ کہا: ’’یہاں بیر نہیں، پتھر ہیں، جی چاہے تو
کھالے‘‘۔ درویش کو غصہ آگیا اور غضب ناک ہو کر کہا : ’’اگر پتھر ہیں تو پھل کے
بجائے پتھر ہی اٹھانا‘‘۔ یہ کہا اور چل دیا۔ اچانک باغبان کی نظر جو بیروں پرپڑی تو
تمام بیر پتھر کے بن چکے تھے۔ سخت افسوس کیا۔ لیکن اب افسوس سے کیا فائدہ ہو سکتا
تھا؟ لوگ حیرت اور تعجب سے ان بیروں کو، جو پتھر بن گئے تھے، دوسری جگہ لے جاتے
تھے۔ اور زہر مہرہ کی طرح امراض میں کام میں لاتے تھے۔ چنانچہ ان میں سے کچھ بیر
بادشاہِ ِزمان شاہِ عالم کے دربار میں بھی پہنچے۔ بادشاہ نے ان کواستاد الاساتذہ
حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ میں پیش کیا۔ اس وقت اس بندہ
گنہگار (مفتی الٰہی بخش صاحبؒ) نے بھی اس کو عبرت کی نگاہ سے دیکھا۔ بڑے سوکھے ہوئے
بیر کے برابر سخت پتھر تھا۔ جو دیکھنے میں بالکل بیر معلوم ہوتا تھا۔ اوپر سے گدلا
اور اندر سے سفید۔ اصلی بیر سے امتیاز مشکل سے ہوتا تھا۔ ان اللّٰہ علی کل شیء
قدیر۔
ف:خلق ِخدامیں کسی کو بھی حقیر نہیںسمجھنا چاہئے۔ کون جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ عزّوجل کے مقبول بندے کس حال میں مل جائیں ؟ لہٰذا ہمیشہ خود کو کمتر اور دوسرے کو برتر یاکم ازکم اپنے سے کمتر کواپنے برابر سمجھیں۔ اگر خدانخواستہ کسی درویش یافقیر ( اس سے پیشہ ور فقیر مراد نہیں ہیں) کی بددعا لگ گئی تو تمام زندگی کفِ افسوس ملتے رہ جائیں گے۔ وما تو فیقی الا باللّٰہ
ایک بلی کے بچہ کے ساتھ سلوک کی وجہ سے مغفرت
حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ(م۲۶۱ھ)کو کسی نے بعد وفات کے
خواب میں دیکھا۔ پوچھا ’’آپ کے ساتھ کیا معاملہ ہوا؟‘‘ فرمایا ’’جب میں پیش کیاگیا
تو پوچھا گیا کہ اے بایزید کیالائے؟‘‘ میں نے سوچا کہ نماز روزہ وغیرہ سب اعمال تو
اس قابل نہیں کہ پیش کروں البتہ ایمان تو بفضلہ تعالیٰ ہے۔ اس لیے عرض کیا کہ’’
توحید‘‘۔ ارشاد ہوا:
’’اماتذکرلیلۃ اللبن‘‘ یعنی دودھ والی رات یاد نہیں ؟
قصہ یہ ہوا تھا کہ حضرت بایزید بسطامی رحمہ اللہ کے ایک شب پیٹ میں درد ہوا تو ان
کی زبان سے نکل گیا کہ دودھ پیا تھا، اس سے درد ہو گیا۔ اس پر شکایت ہوئی کہ درد کو
دودھ کی طرف منسوب کیااور فاعل حقیقی کو بھول گئے۔ پھرارشاد ہوا کہ’’ اب بتلائو
کیالائے؟‘‘ عرض کیا’’اے اللہ ! کچھ نہیں‘‘۔ فرمایا کہ’’ ایک عمل تمہارا ہم کو پسند
آیا ہے۔ ایک مرتبہ بلی کا بچہ سردی میں مررہا تھا۔ تم نے اس کو لے کراپنے پاس
لٹالیا۔ اس کی وجہ سے بخشتے ہیں‘‘۔رہ گئی ساری کی ساری بزرگی اور تمام حقائق اور
دقائق ومعارف، سب کالعدم ہو گئے۔
قبروں کے شکستہ ہوجانے کے سبب مغفرت
حضرت تھانوی نوراللہ مرقدہٗ فرماتے ہیں:
’’الرحمۃ المہداۃ ‘‘ میں ہے کہ ایک نبی eایک مقبرہ پرگزرے، جس میں نئی سی قبریں بنی
ہوئی تھیں۔ پاس گئے تو معلوم ہوا کہ اکثر معذب (عذاب میں) ہیں۔ دعا کی اور آگے گزر
گئے۔ کچھ عرصہ کے بعد پھر وہاں گزر ہوا، جبکہ قبریں شکستہ ہو گئی تھیں۔ قریب پہنچے
تو معلوم ہوا کہ سب کے سب مغفور اور روح وریحان میں ہیں۔ حیرت ہوئی اور جناب باری
میں عرض کیا کہ’’ مرنے کے بعد ان کا کوئی عمل توہوا نہیں، پھرمغفرت کا سبب کیا
ہوا؟‘‘ فرمایا’’ جب ان کی قبریں شکستہ ہو گئیں اور کوئی ان کاپوچھنے والا نہ رہا تو
مجھے رحم آیااور مغفرت کردی‘‘۔
کاپی رائٹ © تمام جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ دارالعمل چشتیہ، پاکستان -- ۲۰۱۴