ہمیشہ خوش رہنے کا فن

ڈاکٹر اختر احمد

ہم زندگی بھر چھوٹی چھوٹی خوشیوں اور بڑے بڑے رشتوں کو صرف پیسے کے لیے نظر انداز کر دیتے ہیں۔ مستقبل کے لیے فکر صرف اور صرف پیسے سے وابستہ کیے رکھتے ہیں، پیسے کے لیے جھوٹ بھی بولتے ہیں۔ لڑتے بھی ہیں اور قتل بھی کر دیتے ہیں۔ پیسے کے لیے کسی کا نقصان کرنے سے نہیں چوکتے۔ اچھے برے کا فرق بھول جاتے ہیں۔ عزت وفخر کا معیار پیسے پر رکھتے ہیں۔ اس پیسے کی دوڑ میں جب صحت ہاتھ سے نکلنے لگتی ہے تو پھر اس پیسے کو پانی کی طرح بہا دیتے ہیں۔ گھر، کاروبار، بینک بیلنس سب بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے۔ اُس وقت احساس ہوتا ہے کہ صحت کتنی بڑی نعمت ہے اور ہم نے اس صحت کے لیے کبھی شکر ادا نہیں کیا اور اگر کبھی کیا بھی تو اتنا سر سری طور پر جیسے کسی بے معنی چیز کے لیے شکریہ ادا کر رہے ہیں۔ صحت کتنی بڑی نعمت ہے اس کا اندازہ اسی وقت ہوتا ہے جب یہ ہمارے پاس نہیں ہوتی۔ پھر ہم سوچتے ہیں کہ جس کے پاس صحت نہیں اس کے پاس تو کچھ بھی نہیں۔ ہم یہ سب جانتے تو ہیں لیکن جو نہی صحت بحال ہوتی ہے ہم بھول جاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں کس خزانے سے مالا مال کیا ہوا ہے ۔ صحت وہ تحفہ ہے جو ہمیں روز ملتا ہے اور ملتا ہی رہتا ہے۔ اس کی قدر اس لیے نہیں کرتے کہ اللہ رب العزت نے تحفے میں دے دی ہے، یہی صحت جب ہاتھ سے نکل رہی ہوتی ہے تو دنیا کی ہر نعمت، رشتہ، ہر خوبصورتی حقیر لگنے لگتی ہے۔
ہم کسی کی تھوڑی سی مدد کرتے ہیں اور اگر تعلقات خراب ہو جائیں تو ان احساسات کا ڈھنڈورا ضرور پیٹتے ہیں۔ اگر وہ شخص کمزور ہو تو اسے ذلیل، اگر زیادہ طاقتور یا اثرور سوخ رکھتا ہو تو ہر جگہ اس کی کردار کشی کرتے ہیں۔ اللہ نے صحت کی صورت میں ہم پر نواز شات کی بارش کر دی اور کبھی احسان تک نہیں جتایا۔ لیکن ہم ہیں کہ دل سے اس کی عنایات کا شکریہ ادا نہیں کرتے، یہ بھی نہیں سوچتے کہ اگر صحت کے لیے اس کا شکر ادا کریں گے تو وہ صحت کو مزید اچھا کر دے گا۔ کیونکہ یہ وعدہ اس رب کا ہے جس کا ہر وعدہ سچا ہے۔
جیسے جیسے صحت کے معاملے میں اللہ کا شکر ادا کرنے کا جذبہ بڑھتا جائے گا۔آپ کی صحت میں روز افزوں بہتری آنا شروع ہو جائے گی۔ جسم میں چستی اور تروتازگی آنا شروع ہو جائے گی۔ ہر صبح کی ابتداء پُر سکون ذہن کے ساتھ ہو گی۔ جسم کچھ بھی کرنے کے لیے خوشی خوشی تیار ہو گا۔ لوگ آپ کو دیکھ کر ترو تازگی محسوس کریں گے۔ شام میں جب آپ اپنے رشتے داروں کے ساتھ بیٹھیں گے تو انہیں خوشگوار احساس دیں گے۔ دوستوں میں آنے سے ماحول اچھا ہو جائے گا کیونکہ آپ جسمانی طور پر اتنے صحت مند ہوں گے کہ لوگ آپ کو دیکھ کر فریش ہو جائیں گے۔ اگر صحت کی قدر نہیں کی، اس کے لیے شکر گزاری کے جذبات پیدا نہیں ہوئے تو آپ لوگوں کے لیے اُلجھن اور بوجھ بنتے جائیں گے۔
شکر گزاری ایک ایسی صفت ہے جس کے ذریعہ آپ اپنی آنکھوں کی بینائی، قوت سماعت اور پورے جسم کے افعال کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ عربی کی مشہور کہاوت ہے کہ

’’صحت مند شخص پر امید ہوتا ہے: اور جس کے پاس امید ہوتی ہے اس کے پاس سب کچھ ہوتا ہے۔‘‘[عربی کہاوت]۔
جس شدت اور دل کی گہرائی کے ساتھ شکر ادا کیا جائے گا اسی تناسب سے صحت بہتر ہونے لگی گی۔
انٹر نیٹ کے کسی بھی سرچ انجن پر دیکھ لیں، متعدد سائنسی تحقیقات سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ بے شمار بیماریوں کی وجہ ذہنی تنائو اور ٹینشن ہے۔ تحقیقات سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ جو لوگ شکر گزاری سے کام لیتے ہیںوہ ذہنی دبائو سے زیادہ تیزی سے نجات پا لیتے ہیں۔
اپنی ٹانگوں کے متعلق سوچیں،آپ کی بنیادی سواری۔ اُن تمام کاموں بارے میں غور کریں جو صرف اور صرف ٹانگیں ہونے کی وجہ سے ممکن ہیں۔ آپ کھڑے ہو سکتے ہیں، بیٹھ سکتے ہیں،ورزش کر سکتے ہیں، بلندی پر چڑھ سکتے ہیں، گاڑی چلا سکتے ہیں اور سب سے بڑا معجزہ یہ ہے کہ انہی ٹانگوں کی وجہ سے آپ اپنے گھر میں چل پھر لیتے ہیں، باتھ روم اور کچن میں چلے جاتے ہیں، باہر گھوم پھر کر آ جاتے ہیں۔ آپ گھاس کی نرمی، فرش کی ٹھنڈک اور ساحل کی نمی ان قدموںکے ذریعہ ہی محسوس کر لیتے ہیں۔ انہی قدموں پرآزادی سے چل کر زندگی کے مزے لوٹتے ہیں۔ تو پھر آج دل کی گہرائیوں اور محبت سے کہیں:۔

۔’’میری ان ٹانگوں اور قدموں کے لیے شکریہ‘‘۔

اپنے بازئوں اور ہاتھوں کے متعلق سوچیں کہ دن بھر میں ان کی مدد سے آپ کتنے ہی کام کرتے ہیں۔ یہ ہاتھ آپ کی زندگی کا سب سے بڑا اوزار ہیں۔ جن سے آپ دن بھر میں ہر وقت کوئی نہ کوئی کام لے رہے ہوتے ہیں۔ ان سے آپ کھاتے ہیں، نہاتے اور کپڑے پہننے میںمدد لیتے ہیں۔
فون اور کمپیوٹر بھی انہی کی بدولت سے استعمال کرتے ہیں۔ اگر ہاتھ نہ ہوں تو آپ کتنے ہی کاموں کے لیے دوسروںکے محتاج ہو جائیں۔ ان ہاتھوں کی اہمیت کا اندازہ بھی اُس وقت ہوتا ہے جب ان میں کوئی زخم یا فریکچر ہو جائے، ہر کام مشکل ہو جاتا ہے۔ ان کے لیے بھی محبت اور دل کی گہرائیوں سے کہیں۔

۔’’میرے بازؤں، ہاتھوں اور انگلیوں کے لیے شکریہ‘‘۔

اپنے سینسر (حواس) کے متعلق بھی سوچیںاگر یہ حواس خمسہ نہ ہوتے تو آپ زندگی کی کتنی بڑی لذتوں سے محروم ہو جاتے، مثلاً چکھنے کی حس۔ چکھنے کی حس کمزور ہو جاتی تو ہم دنیا بھر کے کھانوں اور مشروبات کے ذائقوں سے محروم ہو جاتے ہیں۔ اچھا کھانا ہمارے مزاج کو تبدیل کر دیتا ہے۔ اس کے لیے بھی دل اور محبت سے کہیں۔

۔’’حس ذائقہ کیلئے شکریہ‘‘۔

سونگھنے کی حس کے متعلق تو سوچیں کہ اگر یہ حس نہ ہوتی تو کتنی ساری خشبودار نعمتوں سے محروم رہ جاتے۔ مثلاً پھولوں، پرفیومز، مٹی کی خوشبو جب اس پر بارش کے قطرے گرتے ہیں۔ اگر یہ حس نہ ہوتی تو گرمیوں کی شاموں، ساحل کی لہروں،گرم گرم روٹیوں اور سخت سردیوں میںکمبل میں بیٹھ کر ڈرائی فروٹ کی مہک کیسے محسوس کرتے۔

۔’’سونگھنے کی قوت کے لیے بہت بہت شکریہ‘‘۔

اگر چھونے اور محسوس کرنے کی حس نہ ہوتی تو آپ چیزوں کے ٹھنڈا اور گرم، نرم اور سخت یا چکنا اور کھردرا ہونے کے احساس سے کبھی آشنانہ ہو پاتے۔ کسی کے چھونے ، پیار کرنے، گلے لگانے کے جذبے کو جان ہی نہیں پاتے۔ اگر محسوس کرنے کی حس مر جائے تو انسان کی زندگی مشینی ہو کر رہ جائے گی۔ لہٰذا

۔’’محسوس کرنے کی حس پر بہت بہت شکریہ‘‘۔

ہم جانتے ہیں کہ ہیلن کیلرنابینا تھیں۔ وہ اپنے مضمون ’’بینائی کے تین دن‘‘(Three Days to See)میں لکھتی ہیں کہ ’’میں سوچتی ہوں کہ دنیا میں ہر شخص اگر کچھ دنوںکے لیے اندھا اور بہرا ہو جائے تو پھر اس کو اس نعمت کا احساس ہو گا۔ وہ جن چیزوں کو روز دیکھتا ہے اور انہیں دیکھے بغیر یا محسوس کیے بغیر گزر جاتا ہے، ان کی اہمیت کا احساس ہو گا اور جب نظر نہ آ رہا ہو تو چیزوں کو چھوڑ کر ان کی خوبصورت آواز اور لمس سے جو رابطہ بنتا ہے وہ محسوس کرے گا۔
پھر وہ لکھتی ہیں کہ
میں نے ایک دوست سے جو جنگل کی سیر کر کے لوٹی تھی،پوچھا، ’’تم نے وہاں کیا کیا دیکھا‘‘، اس نے نہایت لاپرواہی سے کہا’’کچھ خاص نہیں۔‘‘
میںحیران سوچتی رہی کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی ایک گھنٹہ جنگل میں گھومتا رہے اور کچھ بھی خاص نہ دیکھے۔‘‘ جبکہ میں جو نابینا ہو کر ایسی سینکڑوں چیزوں کو چھو کر محسوس کر سکتی ہوں، اپنے ہاتھوں میںننھے پتوں کی نازک جسامت کو محسوس کرتی، برچ کی ہموار ٹہنیوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے گزرتی۔ یا صنوبر کی سخت اور کھردری چھال کو محسوس کرتی۔
بہار کے موسم میں درخت کی شاخوں کوچھوتی کہ شاید کوئی کونپل ہاتھ آ جائے،جو موسم سرما کے بعد فطرت کے جاگنے کا پہلا اشارہ ہے۔ میں اپنے ہاتھوں سے لہلہاتے سبز پودوں کو تھام لیتی اور ان کی جننش میں درختوں پر محو نغمہ پرندوں یا ہوا کے سرانے کی موسیقی بھری آواز کو سنتی۔
مجھے حیرت ہوتی ہے کہ دنیاعجائبات سے بھری پڑی ہے اور لوگ ان کی طرف سر سری نظر کر کے گزر جاتے ہیں۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ آنکھوں کی اہمیت ہم اس طرح نہیں جان پائے جس طرح ہیلن کیلر یا کوئی اور نابینا شخص جان پاتا ہے۔
یہ آنکھیں اللہ کی بہت بڑی نعمت ہیں۔ ان سے آپ اپنے دوستوں اور عزیزوں کے چہرے دیکھتے ہیں۔یہ آنکھیں دولت ہیں جو کوئی بھی شخص دنیا بھر کی دولت لٹا کر بھی خریدنے کو تیار ہو گا۔آنکھیں ہزار نعمت ہیں یعنی ایک ہزار نعمتوں کے برابر ہیں۔
یہ آنکھیں آپ کو بغیر کسی قیمت اور محنت مل گئی ہیں۔

۔’’ان آنکھوں کے لیے بہت بہت شکریہ‘‘۔

اپنی قوت سماعت کے لیے بھی شکریہ ادا کریں اور ان سب کے منبع کا بھی شکریہ ادا کریں جس کی بدولت آپ ان تمام حسیات کو استعمال کرتے رہتے ہیں یعنی دماغ۔ دنیا کی کوئی ایجاد اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ارشادِ ربانی ہے کہ:
’’اللہ تعالیٰ نے تمہیں تمہاری مائوں کے پیٹوں سے نکالا ہے کہ اس وقت تم کچھ بھی نہیں جانتے تھے، اسی نے تمہارے کان ،آنکھیں اور دل بنائے تا کہ تم شکر گزاربنو۔‘‘
۔(سورۃ النحل: آیت 78)۔
آپ ایک کاغذ یا کارڈ لیں اور اس پر بڑا بڑا لکھ لیں۔

۔’’شکریہ اس صحت کا، جس کی بدولت میں زندہ ہوں‘‘۔

اس کارڈ کو دن بھر اپنے ساتھ رکھیں اور کسی ایسی جگہ لگا دیں جہاں آپ کی نظر بار بار پڑتی رہے۔ جہاں کام کرتے ہیں، اگر میز ہے تواس پر رکھ دیں۔ اگر آپ ڈرائیورہیں تو گاڑی میں ایسی جگہ رکھیں جہاں بار بار نظر پڑتی رہے۔ اگر آپ کا زیادہ تر وقت گھر ہی میں گزرتا ہو تو جہاں فون رکھا ہو یا سائیڈ ٹیبل وغیرہ پر رکھ دیں۔ مختصر یہ جہاں نظر بار بار پڑے وہاں اسے رکھ دیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب بھی آپ کی نظر اس پر پڑے گی آپ کے چہرے پر مسکراہٹ آ جائے گی۔
آج کم از کم چار مرتبہ دن کے مختلف اوقات میں اس کارڈ پر لکھے گئے ہر لفظ کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھیں اور دل کی گہرائیوں سے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں۔ شکر گزاری کی مدد سے ہم اپنی صحت کو حیرت انگیز طور پر بہتر کر سکتے ہیں اور اگر یہ بات ڈاکٹرز بھی سمجھ لیں اور مریضوں کو صحت یابی کے لیے شکر گزاری کی اہمیت بھی بتاتے رہیں تو روایتی طریقہ علاج میں انقلاب پیدا ہو جائے ۔
 

کاپی رائٹ © تمام جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ دارالعمل چشتیہ، پاکستان  -- 2022




Subscribe for Updates

Name:

Email: