۔’’وہ لڑکی جس کے ساتھ
ایک جنّ نے شادی کرلی تھی‘‘
۔

محمد زبيراعوان

زیادہ تر مغرب کی اذان شروع ہوتے ہی ماورا کی طبیعت بگڑنا شروع ہوجاتی، عمومی طورپر یہ بھی تصور کیا جاتاہے کہ مغرب کی اذان کے وقت جنات کہیں بھی آجارہے ہوں، جیسے ہی اذان شروع ہوتی ہے تو وہیں بیٹھ جاتے ہیں اور اگر نیچے کوئی جانور یاانسان موجود ہوتو اسی میں سرائیت کرجاتے ہیں۔ مغرب کے وقت اگرماورا کی طبیعت خراب نہیں ہوتی تھی تو رات 12بجے کے بعداسے کچھ نہ کچھ دکھائی دینا شروع ہوجاتا تھا۔ کبھی کمرے میں موجود کسی بلی کی شکل میں جنات ماورا کو دکھائی دیتے تو کبھی ہاتھی بن کر آجاتے، یہ سلسلہ پوپھوٹنے تک جاری رہتا، جیسے ہی اذان شروع ہوتی تو وہ سکون کی نیند سوجاتی اورپھر دوپہر تک سوئی رہتی۔
اسی طرح ہفتے کے دودن یعنی منگل اور اتوار یا ہفتے کی شام جنات کی طرف سے چھیڑخانی کے امکانات زیادہ ہوتے تھے، جنات کے آنے سے قبل ہی ماورا کو پتہ چل جاتا تھا، اسے آمد سے کچھ وقت پہلے اپنے آگے پیچھے سایہ محسوس ہوتا تھا جیسے کوئی اس کے ساتھ چل پھر رہاہو، وہ بھی سایہ محسوس ہونے پر پریشان ہوجاتی کہ آج کی رات پھر بے سکونی میں بیتے گی لیکن بروقت کوئی اس کی مدد کرنے والا نہیں تھا، جنات کی حاضری کے وقت ہی وہ خاتون کچھ معاونت کرپاتی تھی۔
’’وہ لڑکی جس کے ساتھ ایک جنّ نے شادی کرلی تھی‘‘۔۔۔ قسط نمبر2 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں۔
یہ سلسلہ چند دن مزید ایسے ہی چلتا رہااور درمیان میں کسی نہ کسی وقت پیرصاحب خود بھی دم کردیتے تھے لیکن اب ماورا کے مزاج میں بھی تلخی آناشروع ہوگئی تھی، کبھی کسی کو گالیاں نکالناشروع ہوجاتی تو کبھی گھر میں موجود کسی نہ کسی چیزکی توڑ پھوڑشروع کردیتی، کبھی چھری اٹھا کر گھر میں پڑے بھالوکی آنکھیں نکالنے کی دھمکیاں دیتی، کبھی کچھ نہ کچھ بجا کر بے شک برتن ہی کیوں نہ ہوں، شورپیداکرنے کا مطالبہ کرتی، اب اہلخانہ کی پریشانی بھی شرو ع ہوگئی تھی لیکن اب اس پریشانی کا سامنا کرنے کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔
پیر صاحب روحانی طورپر کافی منازل طے کرچکے تھے اور جنات بھی اب ان سے نہایت مودبانہ لہجے میں بات کرتے، اب روزانہ کسی نہ کسی وقت دم کرنے کی نوبت شروع ہوگئی تھی، طبیعت خراب نہ ہونے پر کبھی کبھار ناغہ ہوجاتا ورنہ دم کرکے جنات کوحاضرکرنا اور پھر منت سماجت کرکے یا ڈرادھمکاکہ دوبارہ نہ آنے کا وعدہ لے لیا جاتااور پھر جانے کی اجازت دے دی جاتی لیکن چند ایک ایسے جنات بھی ہوتے تھے جوبہت ضد کرتے تھے اور پھر آنے کو کہہ کر چلے جاتے۔
جنات وغیرہ پر یقین نہ رکھنے اورروحانیت سے ناواقف مجھ جیسے ناچیز کیلئے سب سے حیران کن بات یہ تھی کہ ایک دن میری موجودگی میں دم کیاگیا، ماروا چارپائی پر تکیے کی ٹیک لگائے لیٹی ہوئی تھی، ساتھ ہی پیرصاحب بھی کرسی پر تشریف فرما تھے، ماورا کے دوپٹے کے اوپر سے بالوں پر پیر صاحب کا ہاتھ تھا۔ ماورا پہلے غصیلے اور پھر نرم لہجے میں سوالات کاجواب دیئے جارہی تھی، ایک جن نے دوبارہ نہ آنے کا پیرصاحب سے وعدہ کیا لیکن وہ ماننے کو تیار نہیں تھے۔ یہ معلوم نہیں کہ واقعی نہیں مان رہے تھے یا صرف ہاتھ کے نیچے آئے جن کو ڈرا رہے تھے۔، جن کو ہدایت کی گئی کہ اگر وہ سچ بول رہاہے اور دوبارہ واقعی واپس نہیں آئے گا تو کوئی نشانی چھوڑ کرجائے۔جن بھی مان گیا اورماورا نے بتایاکہ وہ ایک گولڈن سکہ دکھارہاہے اور اب کمرے میں ہی رکھ دیا۔ اس کے ساتھ ہی جن کو جانے کی اجازت دےدی گئی۔ بعدازاں وہی سنہری رنگ کا سکہ ماورا کے اسی کمرے میں ہی موجود ایک ٹیبل کی دراز سے ملا۔آپ سوچ رہے ہوں گے کہ شاید جن سونا دے گیا تھاتو آپ غلط ہیں۔ جن کی طرف سے دیاگیا گولڈن رنگ کا سکہ دراصل پلاسٹک کا تھا لیکن اس پر سنہری رنگ تھا، آپ یوں سمجھیں کہ وہ پلاسٹک کی پیلی ٹرافی کا ٹوٹا ہوا کوئی حصہ ہوگا۔پیر صاحب نے بتایاکہ اب یہ دوبارہ نہیں آئے گا، اس نے اپنے وعدے کے بعد نشانی بھی چھوڑی ہے، مزید کسی دوسرے جن کے بارے میں کچھ نہیں کہاجاسکتا۔
عمومی طورپر مغرب کے وقت ہی ماوراکی طبیعت خراب ہوتی یا یوں سمجھیں کہ جنات تنگ کرنے آتے تھے لیکن اب جس مقام پر ماورا مقیم تھی، اس سارے پلازے کو ہی ’کیلہ‘ جاچکا تھا تو اس وجہ سے وہ یہاں زیادہ ہلچل مچانے کے قابل نہیں تھے۔اب یہاں سے ایک نیا سلسلہ شروع ہورہا تھا، جنات ماورا کے جاننے والی مختلف شخصیات، خود پیرصاحب یا کسی پڑوسن کی آواز میں اسے بلانا شروع ہوگئے تھے تاکہ وہ گھر سے باہراور کیل (کیلوں سے حصار کی گئی جگہ)سے آزادی میں لاسکیں۔ایسے میں رات کے دو بجے بھی ماورا گھر کا دروازہ کھول کر باہر نکل جاتی، گھر کے کسی فرد کی طرف سے روکے جانے کی صورت میں مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا،موقف اپناتی کہ اب فلاں آوازدے رہاہے تواب فلاں، آپ لوگ مجھے ان کی بات کیوں نہیں سننے دیتے۔۔۔اب اس وقت وہ کوئی دلیل بھی سننے کو تیار نہ ہوتی اورمحلہ داری کو دیکھتے ہوئے اہلخانہ میں سے بھی کوئی اس نوجوان لڑکی سے زبردستی نہیں کرسکتا تھا۔اس نے ایک طرح سے سب کو بے بس کرکے رکھ دیا تھا۔
ایسے میں اہلخانہ کا صبر بھی جواب دینے لگااور اب تک جنات کیخلاف انتہائی قدم اٹھانے سے گریز کرنے والے پیر صاحب کے پاس بھی کوئی چارہ نہیں تھا، انہوں نے اس خلائی مخلوق کےساتھ سختی سے نمٹنے کا فیصلہ کرلیا۔ (جاری ہے)۔
 

کاپی رائٹ © تمام جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ دارالعمل چشتیہ، پاکستان  -- 2022




Subscribe for Updates

Name:

Email: