حضرت علی ہجویری رحمہ اللہ
قسط:2 سید ارشاد احمد عارف

ہندوستان زمانہ ٔ قدیم سے جہالت کے اندھیاروں کا مسکن اور جادو، شعبدہ بازی اور اوہام پرستی کاگڑھ تھا۔ حق وصداقت کا آفتاب عالمتاب طلوع ہوا تو اندھیاروں کی جگہ روشنی، شعبدہ بازی کی جگہ دلائل وبراہین اور اوہام پرستی کی جگہ حقائق وواقعات پوری قوت سے اپنا وجود منوانے لگے۔ مختصر عرصے میں آپ کی محنت برگ وبارلانے لگی۔
اگرچہ دوچار سخت مقام بھی راستےمیں آئے مگر خدا کے اس نیک بندے نے پرواہ تک نہ کی۔ بعض جوگیوں اورکاہنوں کے علاوہ مختلف مذاہب کے مبلغین نے آپ کی مخالفت میں ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ پہلے اپنے علم کو مقابلے پر لائے۔ جب دال گلتی نظرنہ آئی تو شعبدوں سے مرعوب کرنا چاہا لیکن

۔
(جو اللہ تعالیٰ کے ہوجاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی تائید ونصرت فرماتا ہے)۔عظمت وکرامت کے اس مینار کے سامنے بونے نظر آئے اور ریاضت اور مجاہدے کے بل بوتے پرحاصل کردہ استدراجی کرشمے، سورج کے سامنے چراغ ثابت ہوئے۔ اب مخالف گھٹیا، ہتھکنڈوں پر اُتر آئے۔ اس کے باوجود جب ناکامی ان کا مقدر بن گئی تو حقیقت کو تسلیم کرنے کے سوا چارہ نہ رہا۔ بعض مسلمان ہو گئے اور بعض شرمندگی کے مارے دوسرے علاقوں میں چلے گئے۔
مخالفت کا زور ٹوٹا تو کامیابیاں آپ کے قدم چومنے لگیں۔ پھر تو ہزاروں کی تعداد میں غیرمسلم حاضر خدمت ہوتے اور اسلام قبول کرتے۔ آپ نے ایک مسجد تعمیر کرائی۔ یہ لاہور میں پہلی مسجد تھی جو حکمرانوں کی سرپرستی کے بغیر تعمیر ہوئی۔ مسجد کی تعمیر میں مزدوروں کی طرح حصہ لیا۔ اینٹ گارہ اٹھاتے اور دوسرے کام کرتے۔ مسجد کے ساتھ ہی ایک خانقاہ بنی جہاں نومسلموں کی اسلامی تعلیم وتربیت کااہتمام کیا۔ اسلامی تعلیمات سے بہرہ ور ہونے کے بعد انہیں مختلف علاقوں میں تبلیغ وتلقین کے لئے تیار کیاجاتا۔ ان کے اندر قناعت، تحمل، بردباری، جفاکشی اور مقصد سے لگن جیسی خوبیاں پیدا کی جاتیں۔ تزکیۂ نفس کے ذریعے ا ن میں برائی سے نفرت اور نیکی سے محبت کا جذبہ پیدا ہوتا اور وہ شیخ کے نقش قدم پرچلتے ہوئے اپنی زندگی شعائر اسلامی کی ترویج اور دین اسلام کی تبلیغ کے لئے وقف کردیتے۔ یہی لوگ ملک کے کونے کونے میں جاتے، اللہ کاپیغام پہنچاتے اور کفر کی تاریکیوں میں لپٹے ہوئے دلوں میں حق کانور روشن کرتے ۔ ان مبلغین کے ذریعے حضرت علی ہجویریؒ کے علم وفضل اور کرامات کا چرچا دور دور تک پھیلتا چلاگیا۔ چنانچہ لوگ سفرکی صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے لاہور پہنچتے تاکہ آپ کے کمالات کامشاہدہ آنکھوں سے کریں اورآپ کے روحانی سرچشمۂ فیض سے سیراب ہوں۔
سید علی ہجویری ؒ کی باتیں قلب وذہن کومسخر کرتیں۔ ان کی روحانی قوت اور علمی استدلال ہر کس وناکس کو متاثر کرتا اور جوکام غزنی کے حکمران برسوں میں نہ کر سکے تھے، غزنی کایہ درویش مہینوں میں کر گزرا۔
آپ نے جس طرح غیر مسلموں کو حلقۂ اسلام میں داخل کیااور نومسلموں کے علاوہ مسلمانوں کی دینی تربیت پرپوری توجہ دی۔ اسی طرح اس دورکے ان فتنوں کااستیصال بھی کیا جو اسلام کے نام پر گمراہی پھیلا رہے تھے۔ قرامطی اپنے آپ کو مسلمان کہتے تھے، مگر ان کے عقائد اسلام اور ہندومت کے عقائد ورسوم کاملغوبہ تھے، یہاں بڑی تعداد میں موجود تھے۔ حلولی جو ہر شے میں ذات خداوندی کے حلول(دخول)کے قائل تھے، فقر درویشی کا لبادہ پہنے اپنے جاہلانہ نظریات کی ترویج میں کوشاں تھے۔ آپ نے ان سب کے اغراض ومقاصد کی نہایت بے باکی سے نقاب کشائی کی۔ ان پرمؤثر تنقید فرمائی اور ان کی خلاف مذہب سرگرمیوں کی نشاندہی کی۔ اس طرح آپ نے تبلیغ اور دعوت وا رشاد کے علاوہ تجدید واصلاح کا فریضہ بھی انجام دیا۔
کہا جاسکتا ہے کہ آپ ایک جامع الصفات شخصیت ہونے کے ساتھ ساتھ ہندوستان میں سلسلہ تصوف اور تجدید واصلاح کے بانی ہیں۔ ویسے بھی آپ کی شخصی عظمت کااندازہ اس سے کیاجاسکتا ہے کہ ہندوستان کے امام الاولیاء حضرت معین الدین اجمیریؒ وارد لاہور ہوئے تو حضرت علی ہجویریؒ کے مزار پرُانوار پرحاضری دی اور چالیس دن تک یہاں معتکف رہے۔ آپ کی چلہ گاہ آج بھی مرجع خلائق ہے۔ اسی موقع پر آپ نے مشہور عالم شعر کہا:۔

گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا
ناقصاں را پیرکامل کاملاں را رہنما

۔(خزانۂ فیض عالم کے تقسیم کرنے والے اللہ تعالیٰ کے نورجہاں کے مظہر (سید علی ہجویری) ناقصوں کے کامل رہبر اور لوگوں کی رہنمائی کرنے والے ہیں)۔
آپ نے درس وتدریس اور دعوت وتبلیغ کے علاوہ تصنیف وتالیف کی طرف توجہ دی۔ ان تصانیف کے مطالعہ سے آپ کی وسعت معلومات کااندازہ ہوتاہے۔ آپ کی شہرۂ آفاق کتاب ۔’’کشف المحجوب‘‘ معلومات کا گنجینہ ہے، جس میں علم وعرفان کے موتی بکھرے پڑے ہیں۔ اس کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ علم تاریخ پربھی گہری نظر رکھتے تھے۔ کشف المحجوب میں آپ نے حکمائے عرب وعجم کے جوواقعات اوراقوال درج کئے ہیں، ان کی صحت شک وشبہ سے بالا ہے۔ ان اقوال اور واقعات سے جس طرح استدلال کیاہے، اس سے آپ کی ذہانت اور تبحرعلمی کا پتہ چلتا ہے۔ آپ نے جہاں حضرت امام ابوحنیفہؒ کے فقہی مقام ومرتبہ کو زبردست خراج تحسین پیش کیاہے، وہاں اپنی آزادانہ رائے بھی بلاجھجک ظاہر کی ہے۔ اس آزاد روی کے باوجود آپ کی فکرونظر کاراہ ہموار وناہموار راستے سے سلامت روی کے ساتھ گزر جاتا ہے۔ تصوف میں آپ کا مقام کسی وضاحت کامحتاج نہیں۔ تصوف کے دقیق نکات کو جس طرح اور جس انداز میں بیان کرتے ہیں، اسے حرفِ آخر کی حیثیت حاصل ہے۔
حضرت علی ہجویریؒ روایات اور فن اسماء الرجال کے عالم تھے۔ سیرت نگاری میں آپ کو حیرت انگیز ملکہ حاصل تھا۔ علم وفضل کے لحاظ سے آپ ان یادگارِ زمانہ لوگوں میں سے تھے جوکبھی کبھی عرصۂ عالم میں آتے ہیں اور جب آتے ہیں تو ایک نیاعالم تخلیق کرجاتے ہیں۔ شعر وسخن کاعمدہ ذوق رکھتے تھے۔ نہ صرف صاحب ذوق تھے بلکہ خود بھی صاحب دیوان شاعر تھے۔ شعروسخن میں آواردگی کی بجائے آمد کے قائل تھے۔ جذب وشوق کی کیفیت موزوئی طبع کا باعث بنتی ہے۔ اپنی شعر گوئی کا پس نظر یوں بیان کرتے ہیں۔
۔’’میں روزانہ اپنے محبوب کادیدار کرنے جاتا ہوں۔ جب مجھے اس کاروئے زیبانظر آتاہے کسی کدوکاوش کے بغیر میری زبان پر بے اختیار شعر جاری ہو جاتے ہیں۔ ‘‘۔
آپ نے اپنے وجدان کو اپنارہنما بنایا اور کسی سے اصلاح نہ لی۔ آپ کی شاعری میں سادگی اور ندرت پائی جاتی ہے۔ یہ سادگی بلا کا حُسن لئے ہوئے ہیں۔ سوز و گداز اور شدت جذبات آپ کی شاعری کی نمایاں خصوصیات ہیں۔
۔’’کشف المحجوب ‘‘ کے علاوہ آپ کی دوسری تصانیف یہ ہیں۔ ’’منہاج الدین،البیان لاہل العیان، اسرار الخرق والمؤنیات، کشف الاسرار، باالرعایت بحقوق اللہ۔‘‘۔
کشف المحجوب سلسلۂ تصوف کی اُمم الکتب میں شمار ہوتی ہے۔ اس کے مضامین میں توحید ورسالت پرایمان، فکر آخرت اورمطالعہ کائنات کی ترغیب وتلقین ملتی ہے۔ سادہ سے انداز میں حقائق کائنات کی گرہ کشائی کی گئی ہے، ایک جھلک ملاحظہ ہو:۔
۔’’انسان کے پاس عقل اور علم ہی کسی چیز کو جاننے اور اس کی معرفت کے ذرائع ہیں۔ لیکن خدا کو جاننے اور اس کی معرفت حاصل کرنے کے لئے اگر صرف عقل اور علم کافی ہوتےتو ہر عالم، عارف ہوتا۔ حقیقت یہ ہے کہ علم اور عقل معرفت کی علت نہیں بلکہ محض اس کے ذرئع ہیں۔ معرفت کی علت صرف خدا کی عنایت ہے۔ اس کی عنایت کے بغیر علم اور عقل دونوں اندھے ہیں اور یہ دونوں مل کر بھی انسان کو حقیقت سے ہم آغوش نہیں کرسکتے۔‘‘۔
۔’’عارف یہ جان لے کہ خداوند تعالیٰ ایک ہے، اس کے ہاں حضر وغائب، وصل اور فصل، جہت اور امکان، حرکت اور سکون کوئی چیزنہیں۔ وہ محدود نہیں ہے کہ ان میں سے کسی چیز کا سوال پیدا ہو۔‘‘۔
۔’’ اس کا کوئی ہمسر نہیں جسے ممنون کرنے کی ضرورت لاحق ہو۔ حکم اس کے سوا کسی کانہیں اور اس کاحکم سب کا سب حکمت ودانائی ہے۔ نفع اور ضرر، عزت اور ذلت، زندگی اورموت، نیکی اور بدی سب اُسی کی طرف سے مقدر ہے۔ ‘‘۔
۔’’ایمان یہ ہے کہ بندے کی تمام صلاحتیں خدا کی طلب، جستجو اور اس کی رضا جوئی میں صرف ہوں،کیونکہ معرفت کے بادشاہ (ایمان ) کاکسی دل میں جاگزیں ہونا تقاضا کرتا ہے کہ وہ نافرمانی سے پرہیز کرے۔ جہاں سورج موجود ہو، وہاں اندھیرں کاکیاکام ؟ ‘‘۔
۔’’یاد رکھو! علم کے ساتھ عمل ضروری ہے۔ نہ علم کے بغیر عمل نفع بخش ہے اور نہ عمل کے بغیر علم مفید۔ جس علم کی پُشت پرعمل موجود نہ ہو، وہ علم جہل کے زمرے میں شامل ہیں۔ ‘‘۔
۔’’ انسان جب تک اپنے علم پرعامل نہ ہو، اس کے لئے آگے راہ ہی نہیں کھلتی۔ حضرت ابراہیم ادھم فرماتے ہیں: ایک دفعہ میں نے ایک پتھر راستے میں پڑاپا یاجس پرلکھاتھا مجھے الٹ کرپڑھو۔ میں نے الٹ کر دیکھا تو لکھا تھا:۔

یعنی جو کچھ توجانتا ہے اس پر عمل نہ کرے گا تو ان باتوں کوجاننے کی طلب کیسے پیدا ہو گی جو تو نہیں جانتا۔ ‘‘۔
حضرت حاتم رضی اللہ تعالیٰ نے فرمایا :’’جب میں نے چار علم حاصل کر لئے تو دوسرے تمام علوم وافکار سے فارغ ہو گیا۔ لوگوں نے پوچھا وہ چار علم کون سے ہیں ؟ آپ نے فرمایا :۔
۔(۱) جب سے مجھے یہ پتہ چل گیا ہے کہ میرا رزق میرے لئے علیحدہ کرکے رکھ لیاگیا ہے جو کسی صورت میں بھی کم وبیش نہیں ہو سکتا، اس وقت سے میں غم روزگار سے آزاد ہو گیا ہوں۔
۔(۲)جب سے میں نے یہ جان لیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا مجھ پر جوحق ہے وہ میرے سوا کوئی اور ادا نہیں کرسکتا، اس وقت سے میں حق کی ادائیگی میں مشغول ہو گیا ہوں۔
۔(۳)جب مجھے یقین ہو گیا کہ موت میرے سرپر سوار ہے اور میں اس سے بھاگ نہیں سکتا، میں اس کا انتظار کرنے لگا ہوں۔
۔(۴) جب سے میں نے جان لیا کہ میراخدا میرے تمام افعال کی خبر رکھتا ہے، میں ایسے تمام افعال کے ارتکاب سے اجتناب کرتا ہوں جو روز قیامت مجھے شرمندگی میں مبتلا کریں۔‘‘۔
تصوف نیک خوئی کانام، نفس اور حرص وہوا کی غلامی سے آزادی پانا، باطل کے مقابلے میں جرأت ومردانگی دکھانا، دنیوی تکلفات کو ترک کردینا اور دنیا کو دوسروں کے لئے چھوڑ دینا تصوف کامنشا اور مدعا ہے۔ ‘‘۔
۔’’لباس کے بارے میں کسی تکلف سے کام نہ لیناچاہیے۔ جیسا ملے، پہن لیاجائے۔ بہتر صورت یہ ہے کہ انسان کسی چیز کو بھی عادت نہ بنائے۔ کیوں کہ جب کوئی چیز عادت بن جاتی ہے تو آدمی کو اس سے محبت ہو جاتی ہے اور یہ اس کی طبیعت میںداخل ہو کرحجاب بن جاتی ہے۔‘‘۔
نماز تعمیل ارشاد کانام ہے۔ نماز حکم کی تعمیل کا بار باراعادہ ہے جس میں انسان ابتدا سے انتہا تک خدا کاراستہ پاتا ہے۔
کشف المجوب کے علاوہ دوسری کتب اور تذکروں میں آپ کے ملفوظات اور تعلیمات کی جھلک یوں ملتی ہے۔
۔’’راہ ِحق کے سالکوں کا پہلا مقام تو بہ اور استغفار ہے۔ ‘‘۔
۔’’درویش کوچاہیے بادشاہ کی ملاقات کو سانپ اژدھے کی ملاقات کے برابر سمجھے۔ ‘‘۔
۔’’جو شخص ایثار قربانی کامظاہرہ کرتا ہے، وہ مرکر بھی زندہ رہتا ہے۔ ‘‘۔
حضرت علی ہجویریؒ ان بزرگوں میں سے تھے جن کا اوڑھنا بچھونا، فقرو درویشی ہوتا ہے۔ جب انسان فقر غیور کی دولت سے مالامال ہو جائے توپھر دامن حیات داغدار ہونے کا اندیشہ باقی نہیں رہتا۔ فقر غیور جہاں انسان میں خودی بیدار کرتاہے، وہاں دنیوی حرص وہوس بھی باقی نہیں رہنے دیتا۔ چونکہ آپ کی زندگی کا سرمایہ اللہ اوراس کے رسولﷺ کی محبت کے سوا کچھ نہ تھا، اس لئے آپ کی زندگی پاکیزگی کامرقع تھی۔ کبھی کسی امیر یا بادشاہ کے دربار سے تعلق نہ رکھا، بلکہ امراء کی محفلوں سے ہمیشہ کنارہ کش رہے۔ غذا قلیل اور معمولی تھی۔ سادہ لباس پہنتے جو صاف ستھرا ہوتا، زندگی کا بیشتر حصہ سیروسیاحت میں گزرا، مگر جمعہ کی نماز کبھی قضا نہ کی۔ تحمل اور بُردباری آپ کی سیرت کا نمایاں جوہر تھا۔ تواضع اور فیاضی گویا گٹھی میں پڑی تھی، مسافروں اور فقراء کی خدمت میں قلبی راحت محسوس کرتے۔
آپ نے اپنی ابتدائی زندگی میں شادی کی۔ مگر بہت جلد زوجہ محترمہ فوت ہو گئیں۔ دس سال کا عرصہ مجرد گزرا۔ رسول اللہ ﷺ کی سنت کے مطابق دوسرا نکاح کیامگر وہ عفیفہ بھی ایک سال کے بعد وفات پاگئیں اور یوں آپ نے اپنے پیچھے نسبی جانشین نہ چھوڑا۔ آپ نے تقریباً ایک سو سال کی عمر پائی اور لاہور ہی میں انتقال فرمایا۔ آپ کامزار اس مسجد کے قریب بنا جو آپ نے تعمیر کرائی تھی۔ یہ مزار پُرانوار آج بھی مرکز تجلیات ہے۔ اب تک کروڑوں افراد اس مزار پر حاضر ہو کر حضرت علی ہجویریؒ کے حضور خراج عقیدت پیش کرچکے ہیں جن میں اولیاء وصلحا اور سلاطین وامراء کی بڑی تعداد شامل ہے۔
۔۱۹۔۲۰ صفر المظفر کو آپ کا عرس منایا جاتا ہے، جس میں لاکھوں زائرین شرکت کرتے ہیں۔

ہر گز نمیرَد آنکہ دِلَش زندہ شد بعشق
ثبت است برجریدۂ عالم دوامِ ما!

کاپی رائٹ © تمام جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ دارالعمل چشتیہ، پاکستان  -- 202
2




Subscribe for Updates

Name:

Email: