بچوں کی کامیابی یا ناکامی میں صرف سکول ذمے دار نہیں
ڈاکٹر اختر احمد

ہر والدین کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ کلاس میں بس انہی کا بچہ فرسٹ آئے لیکن ہر کوئی تو فرسٹ نہیں آ سکتا تاہم اتنا ہے کہ آپ کے بچے کا شمار کم از کم ٹاپ کے دس بچوں میں تو ہونا چاہیے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو بحیثیت والدین آپ کی ذمے داری ہے کہ آپ اس کے اسباب کا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ کہاں کمزوریاں ہیں۔ یقیناً کوشش کرنے سے بچے کی تعلیمی استعداد کار بڑھائی جا سکتی ہے۔ آئیے ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ بچوں کی تعلیمی صلاحیتیں بہتر بنانے کے لیے ماہرین کیا کہتے ہیں۔

پہلی کوشش والدین کو کرنا ہو گی

جیسا کہ سب ہی جانتے ہیں کہ بچے کی تعلیم و تربیت میں والدین کا کردار بنیادی ہوتا ہے تو والدین کو یہ ذمہ داری ہر صورت اٹھانی ہو گی۔ سال ہا سال سے ایک معروف امریکی سکول میں پڑھانے والی ٹیچر جولی دوگان کہتی ہیں بچوں کی کردار سازی میں سب سے بڑا اور اہم کردار والدین ہی کا ہوتا ہے۔ یہ والدین کی ذمے داری ہے کہ وہ بچے کی اس طرح رہنمائی کریں کہ وہ سکول کا کام بروقت اور ٹھیک انداز میں کرے۔ وہ سکول کے کام کو اپنی ذمے داری سمجھے کیونکہ بچے کو تعلیم کی طرف راغب کرنا، اس کی پڑھائی میں دلچسپی پیدا کرنا اور اسے ایک باعتماد فرد بنانے میں والدین کا کوئی دوسرا نعم البدل ہو ہی نہیں سکتا۔ بچے کا کوئی ذاتی معاملہ ہو یا تعلیم کا وہ سب سے زیادہ بھروسہ اپنے والدین ہی پر کرتا ہے۔

بچوں کی تعلیم ایک ٹیم کا کام

ایک اور سکول ٹیچر کار ولن ویکٹیلڈ کہتے ہیں کہ تعلیم ایسی مہم ہے جسے ایک ٹیم مل کر ہی سر کر سکتی ہے۔ اساتذہ، والدین، طالب علم اور کمیونٹی تمام اس ٹیم کا حصہ ہیں۔

پڑھیں، پڑھیں اور پڑھیں

ایک اور امریکی سکول ٹیچر پامیلا وائٹ لک کہتی ہیں کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ کلاس روم میں آپ کے بچے کی پہچان ایک ذہین اور ذمے دار بچے کی ہو تو پڑھے بغیر یہ کام نہیں ہو گا۔ پڑھنا اچھے امتحانی نتائج کی کنجی ہے۔ پڑھے گا ہی تو کچھ کرے گا۔ اپنے بچوں کو کتابیں پڑھنے اور مطالعے کا عادی بنائیں۔اساتذہ کی اکثریت اس بات سے متفق ہے کہ اگر آپ پڑھائی میں اپنے بچے کی مدد کرنا چاہتے ہیں تو جو بھی ہو بچے کو کتابوں سے دوستی کرائیں۔ صرف سکول میں کتاب پڑھنا کافی نہیں ہو گا۔ والدین اپنے سامنے اس بات کا اہتمام کریں کہ بچہ گھر میں بھی ان کے سامنے پڑھے۔ پامیلا وائٹ کے مطابق پڑھانے کا آغاز یقیناً والدین ہی سے ہونا چاہیے۔

سوالات کی حوصلہ افزائی کریں

یہ درست ہے کہ پڑھنا بنیادی نکتہ ہے لیکن صرف پڑھنا ہی کافی نہیں۔ ماہر تعلیم اور یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر ڈارویک فیلڈ کہتے ہیں کہ بچوں کے ساتھ سوالات کے سیشن رکھیں اور اہم اسٹوریز پر ان سے گفتگو کریں۔ پروفیسر ڈاکٹر ڈار ویک فیلڈ کہتے ہیں کہ بعض والدین بچوں کے سوال کرنے کی عادت سے زچ ہوتے ہیں۔ بچے کے کسی سوال پر یہ کہنا کہ ’’میرا دماغ نہ کھائو‘‘ کا مطلب اپنے بچے کے دماغ کو بند کرنے کے مترادف ہے۔ بچوں کے سوالات پر ہمیشہ ان کی حوصلہ افزائی کریں اور عمدہ اور بہترین سوال پر بچے کی تعریف کریں۔ بچوں کو جواب دے کر سمجھانے کے بجائے بچوں کو ان کے سوالوں کے ذریعے سمجھائیں۔

اپنے تجربات سے بچوں کی رہنمائی کریں

بچوں کی تعلیم کی ایک اور ماہر ملیسا میکولے کہتی ہیں کہ روزمرہ کے تجربات کو بچوں کو سکھانے کے لیے استعمال کریں۔ اس سے بچے عملی طور پر سیکھتے ہیں۔ ان کا آئی کیو بڑھتا ہے۔ ملیسا میکولے کہتی ہیں کہ بچوں کو اپنے ماضی کے ایسے تجربات سے سکھائیں جس سے بچوں کی درست سمت میں رہنمائی ہوتی ہو۔ ملیسا میکولے کہتی ہیں کہ ایک ڈاکٹر نے بتایا کہ بچوں کو حقیقی واقعات سے بڑی دلچسپی ہوتی ہے۔ خاص طور پر اپنے ماں باپ کے منہ سے سننے میں، ملیسا کے مطابق والدین سے میٹنگ میں ایک بار ایک ڈاکٹر سے ان کی ملاقات ہوئی۔ ان کا بچہ واقعی ایک شاندار بچہ تھا، میں نے تعریف کی کہ آپ اپنے بچے کی بہت اچھے انداز میں تربیت کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر نے انہیں بتایا کہ وہ اپنے بچے کو زندگی کے حقیقی تجربات اور واقعات سناتا ہے اور اس میں بچے کے ساتھ اسے خود بہت اچھا لگتا ہے۔ ڈاکٹر نے کہا کہ ایک بار وہ اپنی فیملی کے ساتھ کہیں جا رہے تھے کہ زیر تعمیر سڑک پر ان کی نظر ایک مزدور پر پڑی۔ جب میں نے اس سے ہیلو ہائے کیا تو میرے بچے کو بہت حیرانگی ہوئی۔ اس نے پوچھا یہ کون تھا تو میں نے اسے بتایا کہ یہ میرا سکول کے زمانے کا کلاس فیلو تھا۔ یہ بالکل پڑھائی پر توجہ نہیں دیتا تھا۔ اس کے ساتھی اور ٹیچر بھی اس کے رویے سے تنگ تھے۔ آخر ایک دن یہ سکول سے بھاگ نکلا۔ میں نے اپنے بچے سے کہا تم سوچو کہ اگر میں بھی پڑھائی سے دل چراتا اور محنت نہیں کرتا تو آج میں بھی بھری دوپہر میں تپتی دھوپ میں کھڑا سڑ رہا ہوتا۔ نہ ہی تمہارے پاپا کے پاس ایسی اچھی گاڑی ہوتی۔ ٹیسا ہوبز کا کہنا ہے کہ گاڑی چلاتے، کسی کلینک کے باہر بیٹھے اپنی باری کا انتظار کرتے یا اسی طرح کا کوئی اور وقت بچوں کو روزمرہ واقعات کے ذریعے سکھانے کا بہترین موقع ہوتا ہے۔

بچے کی کارکردگی پر کڑی نظر رکھیں

والدین کو یہ جان لینا چاہیے کہ ٹیچر وہی کرے گا جو اس کے کرنے کا کام ہے، جو والدین کے حصے کا کام ہے وہ انہیں ہی کرنا پڑے گا۔ آپ کی روٹین میں یہ چیز شامل ہونی چاہیے کہ آپ روزانہ بچے کی کاپیاں چیک کریں۔ ان کے اسائنمنٹ سے باخبر رہیں۔ یہی نہیں ان سے پوچھیں کہ آج کس ٹیچر نے اسے کیا پڑھایا؟ اگر کسی کتاب پر لیٹ ورک یا والدین کے لیے کوئی پیغام لکھا ہے تو ٹیچر کو اس کا جواب دیں۔ اگر بچے کے رویے کے بارے میں کسی قسم کی شکایت کی گئی ہے تو اس کی وجوہات تلاش کریں اور کوشش کریں کہ بچہ اپنا رویہ تبدیل کرے۔ یہی نہیں اگر ہو سکے تو ٹیچر سے اس بات کی اجازت لیں کہ آپ کبھی کبھار کلاس روم تک جا سکیں، اس سے آپ کو اندازہ ہو گا کہ آپ کے بچے کا رویہ کیا ہے؟ اسی طرح اگر بچے سے متعلق آپ کو کوئی پریشانی ہے تو اس معاملے میں کلاس ٹیچر سے وقت لیں اور اس سے درخواست کریں کہ وہ آپ سے تعاون کرے۔

صرف اے گریڈ پر نظر نہ رکھیں

والدین کی کوشش ہونی چاہیے کہ وہ بچے کی تعلیمی کارکردگی کو بہتر سے بہتر بنانے کے لیے جو ممکن ہو وہ کریں لیکن ہر وقت بچے کی رپورٹ کارڈ میں کتنے ’’اے‘‘ آئے ہیں اس پر نظر رکھنا ہی کافی نہیں یا یہی نہیں کہ آپ بچے کو صرف اسی وقت سراہیں جب وہ بہت ہی غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کرے۔ کبھی نتیجہ بہت اچھا نہیں بھی آتا، مطلب کسی نہ کسی مضمون میں بچے کی کارکردگی توقع کے مطابق نہیں ہوتی اور ایسا ہو جائے تو سر پکڑ کر بیٹھنے اور بچے کو سخت قسم کی سرزنش نہ کریں۔ کوشش کریں کہ ایسی وجوہات کو تلاش کیا جائے جس سے بچے کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔ مریسا برٹ کہتی ہیں کہ قدرتی طور پر بچے بعض مضامین میں اپنی دلچسپی ظاہر کرتے ہیں لیکن بعض مضامین میں بچوں کو مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔

چند بنیادی باتوں کا خیال رکھیں

بچوں کی تعلیمی کارکردگی میں چند بنیادی باتیں بہت ضروری ہیں۔ اس بات کو یقینی بنائیں کہ بچہ اپنی نیند پوری کرے۔ غذائیت سے بھری خوراک کھائے۔ والدین کو معلوم ہونا چاہیے کہ بچے کی تعلیم اس کی صحت سے جڑی ہوتی ہے۔ ایک صحت مند جسم ہی میں صحت مند دماغ ہوتا ہے۔ بچے کی طبی صحت کا وقتاً فوقتاً معائنہ کراتے رہیں۔ حال ہی میں برطانیہ میں کی گئی ایک ریسرچ میں یہ بات سامنے آئی کہ جو بچے روزانہ ایک اچھا ناشتہ کر کے سکول جاتے تھے ان کی کارکردگی ناشتے کے بغیر سکول جانے والوں سے بہت بہتر تھی۔

والدین اور ٹیچرز میں ملاقات ضروری ہے

بے شک آپ بچے کی روزانہ ڈائری چیک کرتی ہوں۔ اسی طرح اس کے ہوم ورک اور دیگر کاپیوں پر نظر رکھتی ہوں لیکن ماہ دو ماہ بعد والدین اور اساتذہ میں ملاقات انتہائی مثبت نتائج سامنے لاتی ہے۔ ماہرین تعلیم کہتے ہیں کہ اس معاملے میں ٹیچرز کو بھی چاہیے کہ وہ والدین کو ملاقات کی اہمیت کے بارے میں بتائیں۔ اس ملاقات کا فائدہ یہ رہتا ہے کہ آپ بچے کو پڑھانے والے تمام مضامین کے اساتذہ سے ملتے ہیں اور بچے کی کارکردگی کا اندازہ لگا لیتے ہیں۔

ہر بچہ ایک جیسا نہیں ہوتا

والدین کو معلوم ہونا چاہیے کہ تمام بچے یکساں ذمے دار نہیں ہوتے۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کا ایک بچہ ایسا ہو جسے ہوم ورک کے لیے آپ کو بار بار نہ کہنا پڑتا ہو لیکن سب بچے ایک جیسے نہیں ہوتے۔ لڑکیاں اس معاملے میں عموماً ذمے داری کا مظاہرہ کرتی ہیں لیکن لڑکے لاابالی واقع ہوتے ہیں۔ انہیں آپ کو بعض اوقات باندھ کر رکھنا پڑتا ہے۔ والدین یہ بات جان لیں کہ نظم و ضبط کے بغیر بچے کی تعلیمی صلاحیتوں میں نکھار نہیں لایا جا سکتا۔ آپ کو اپنے بچے کا ایک شیڈول بنانا پڑے گا۔ اس کے کھانے پینے اور کھیلنے اور پڑھنے کے اوقات کار مقرر کرنا ہوں گے۔

بچے کو شعوری طور پر قائل کریں

بچوں کی تعلیم کی ماہر مریسا برٹ کہتی ہیں کہ یہ بہت اہم ہے کہ آپ اپنے بچے کو تعلیمی کارکردگی بڑھانے کے لیے شعوری طور پر قائل کرتے ہیں یا اسے ڈرا دھمکا کر پڑھاتے ہیں۔ مریسا برٹ کہتی ہیں کہ بچہ اگر شعوری طور پر تعلیم سے لگائو بڑھائے گا تو یہ خوف اور دھمکیوں سے پڑھنے کے مقابلے میں کہیں زیادہ بہتر ہو گا۔ مریسا برٹ کہتی ہیں کہ بہترین motivation تو یقینًا یہی ہے کہ آپ کا بچہ جان جائے کہ شاندار کامیابی کی زندگی میں اہمیت کیا ہے؟ یہ احساس نہ صرف بچے کے سکول میں بلکہ اس کی آئندہ زندگی میں بھی اس کے بہت کام آئے گا، وہ ہمیشہ بہتر سے بہتر نتائج کے لیے جدوجہد جاری رکھے گا۔

بچے کو خود سیکھنے دیں

ایک اور ماہر تعلیم کیرولین ویکٹیلڈ کا کہنا ہے کہ اپنے بچے کو کامیابیوں اور ناکامیوں سے سیکھنے دیں۔ کرولین کہتی ہیں کہ بحیثیت والدین آپ کو لگتا ہو گا کہ ہوم ورک کا تمام کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لیں لیکن شاید یہ آپ کے بچے کے لیے زیادہ اچھا نہیں ہو گا۔ کیرولین کہتی ہیں کہ آپ بچے کی سرگرمیوں پر نظر ضرور رکھیں لیکن جیسے جیسے وہ بڑا ہوتا جائے اس کو ذمہ داری اور قدرے آزادی کا بھی سونپتے جائیں۔ اگر وہ کامیاب ہوتا ہے تو اپنی کوششوں سے کامیاب ہو اور اگر کہیں ناکامی ہوتی ہے تو اسے احساس ہونا چاہیے کہ کیوں ناکام ہوا ہے؟

بچہ گھر سے بھی سیکھتا ہے صرف سکول سے نہیں

سکول ٹیچر ٹیسا ہوبز کہتی ہیں کہ ’’نظم و ضبط، تہذیب اور احترام بچہ گھر سے سیکھتا ہے۔‘‘ بیشتر ٹیچرز کا اس بات پر اتفاق ہے کہ کلاس میں بچوں کی بدتمیزیاں ایک بڑا مسئلہ ہے۔ کچھ والدین نظم و ضبط کا سارا بوجھ سکول والوں پر ڈال کر خود کو بری الذمہ کر لیتے ہیں لیکن سچی بات یہ ہے کہ جب گھر میں نظم و ضبط کا خیال نہیں رکھا جائے گا تو صرف اساتذہ اکیلے یہ ذمے داری نہیں نبھا پائیں گے۔ ٹیسا ہوبز نے کہا کہ جب بچے گھر پر نظم و ضبط کی پابندی نہیں کریں گے اور دوسروں سے عزت و احترام سے پیش نہیں آئیں گے تو انہیں سکول میں بھی انہی غلط چیزوں سے روکنا ممکن نہیں رہے گا۔اچھی باتیں بچے کے کردار کا حصہ ہونی چاہئیں۔ والدین کو اس کی شخصیت کی تعمیر اس انداز سے کرنی چاہیے کہ چاہے کلاس روم ہو یا گھر یا پھر کوئی اور جگہ، بچے کی شخصیت کا سلجھا پن ہر جگہ نظر آنا چاہیے۔

بچوں کی حوصلہ افزائی کریں

تعریف کوئی بھی کرے اور کسی کی بھی، یہ سب کو اچھی لگتی ہے۔ ٹیسا ہوبز کہتی ہیں بچوں کے معاملے میں تعریف کی اہمیت چار گنا بڑھ جاتی ہے۔ اچھے اور مثبت کاموں پر ان کی تعریف اور حوصلہ افزائی کریں۔ یہی نہیں والدین اپنے بچے کے سب سے بڑے چیئر لیڈر ہونے چاہئیں۔ جب بچے سکول میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرے یا ٹیچرز اس کے اچھے رویے کی تعریف کریں، آپ بھی بچے کی حوصلہ افزائی کریں۔ بچے کی خود اعتمادی کے لیے یہ بہت ضروری ہوتا ہے۔ لہٰذا ہمیشہ بچے کو سراہنے کا موقع ہاتھ سے نہ جانے دیں۔

کمزور مضامین میں بچے کی مدد کریں

اگر آپ کا بچہ حساب یا سائنس وغیرہ یا کسی بھی اور مضمون میں کمزور ہے تو اسے نالائق، کند ذہن یا کام چور وغیرہ کے طعنے مت دیں۔ ایسا کرنے سے کچھ بہتری نہیں آنے والی۔ تنقید سے بچے تنقید ہی سیکھتے ہیں۔ایسے طریقے اختیار کریں جس سے بچہ کمزور مضامین میں دلچسپی لینا شروع کر دے۔ آپ کی کوشش ہونی چاہیے کہ ہر وہ طریقہ اختیار کیا جائے جس سے بچے کے لیے مضمون کو سمجھنے میں آسانی پیدا ہو۔ امریکی ماہر تعلیم ٹریسا میڈن کہتی ہیں کہ آپ کے بچے کو معلوم ہونا چاہیے کہ خدا نے اسے جیسا بھی بنایا ہے آپ اس پر فخر کرتے ہیں۔ یہی والدین اور بچے کے درمیان خوبصورت احساس ہے جس پر بچہ ترقی کی منزلیں طے کرتا جاتا ہے۔
 

کاپی رائٹ © تمام جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ دارالعمل چشتیہ، پاکستان  -- 2022




Subscribe for Updates

Name:

Email: