حضرت علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ | |
قسط:1 | سید ارشاد احمد عارف |
بات کچھ بھی نہ تھی مگر جوگی بات کا پتنگڑ بنانے پر
تلا نظرآتاتھا۔ آخر انہیں بھی غصہ آگیا۔ ہوا یوں کہ جوگی نے شعبدہ بازی کے زور
پر بستی کے لوگوں کومجبور کیا کہ وہ باری باری سارا دودھ اس کے پاس لایا کریں ورنہ
گائے بھینسیں دودھ کی بجائے خون دیاکریں گی۔ لوگ ضعیف الاعتقاد تھے، انکار نہ کرسکے۔
ویسے بھی ہندوستان کی سرزمین جادوگری اور شعبدہ بازی کامرکز رہی ہے۔
بستی والے باری باری اپنے گھر کا سب دودھ جوگی کو دے آتے اور سمجھتے کہ بستی زمینی
وبا اور آسمانی آفت سے محفوظ ہو گئی ہے۔
یہ سلسلہ نہ معلوم کب تک جاری رہتا مگر ایک دن ایک بڑھیا دودھ لئے جارہی تھی کہ
درخت کے نیچے بیٹھے ہوئے اللہ اللہ کرنےوالے ایک درویش نے اسے روکا اور دودھ پینے
کی خواہش ظاہر کی۔
’’بیٹا !اگردودھ جوگی کے پاس نہ لے گئی تو میری گائے بھینسیں کسی آفت کاشکار ہو
جائیں گی۔ ‘‘ بڑھیا نے بڑے مظلومانہ اور سہمے سہمےلہجے میں کہا۔ درویش نے دودھ لے
لیا اور اسے تسلی دی اور کہا ’’بستی والوں سے کہو، وہ دودھ جوگی کے پاس نہ لے جائیں
اور اللہ پر بھروسہ رکھیں، جوگی انہیں کوئی نقصان نہ پہنچا سکے گا۔ ‘‘ بڑھیا مطمئن
ہو کرچلی آئی۔
جوگی دو تین دن تک انتظار کرتا رہا، لیکن کوئی شخص بھی اس کے پاس دودھ لے کر نہ
آیا۔ مارے غصے کے وہ کھول اٹھا۔ کھوج لگایا کہ معاملہ کیا ہے؟ پتہ چلا کہ ایک
درویش کے کہنے پر لوگوںنے دودھ بھیجنا بند کردیا ہے۔ جوگی یہ سن کر آگ بگولا ہو
گیا۔ اسی وقت درویش کے پاس آیااوراُول فول بکنے لگا۔ درویش اسے سمجھاتا رہا کہ تم
انہیں اپنا تابع مہمل کیوں بنانا چاہتے ہو؟ لیکن جوگی غصے میں تھا۔ اس لئے درویش کی
نرم مزاجی کوکمزوری پرمحمول کیااور کہنے لگا ’’ تمہیں کس نے اختیار دیا ہے کہ میرے
معاملات میں دخل دو۔ ‘‘ درویش نے کوئی جواب نہ دیا۔ جوگی نے کہا ’’ اگر تم اپنے آپ
کواتنا ہی صاحب کمال سمجھتے ہو تو آئو میرامقابلہ کرو۔ میں علم وکمال کامظاہرہ
کرتا ہوں، تمہارے اندر بھی کچھ ہے توظاہر کرو۔ ‘‘
’’میاں! ہم اللہ تعالیٰ کے عاجز بندے ہیں۔ کمال اور کبریائی تو اُسی کو زیبا ہے۔
شعبدہ گری ہمیں نہیں آتی۔ تم اپنے کمالات دکھائو۔ ‘‘ درویش نے جواب دیا۔
جوگی نے اپنی جسمانی ریاضت کے بل پرحاصل کی ہوئی قوت کے ذریعے شعبدہ دکھانا شروع
کیا۔ درویش نے فرمایا ’’یہ تو بازاروں میں پھرنے والے بازی گر بھی دکھاتے ہیں۔ اپنا
وہ کمال دکھائو جس پر تم نازاں ہو۔ ‘‘
جوگی نے چھلانگ لگائی اور ہوا میں اڑنے لگا۔ درویش نے اپنا جوتا اٹھا کر پھینکا۔
جوتا جوگی کے سر پر پڑا اور کفش کاری شروع ہو گئی۔
جوگی نے زمین پر قدم رکھے تو جوتے اس کے سرپرپڑ رہے تھے۔ پشیمان ہو کر درویش کی
خدمت میں عرض کی مجھے مسلمان کرلیجئے۔
یہی درویش بعد میں گنج بخش ؒ کے لقب سے مشہور ہوئے اور جوگی نے شیخ ہندی ؒ بن
کرزندگی اللہ کی عبادت میں گزار دی۔
غزنی اسلامی سلطنت کے امیر ناصر الدین سبکتگین کی وفات پراس کا بیٹا سلطان محمود
غزنوی سر پر آرائے سلطنت ہوا تو ہندوستان کےراجے مہاراجے غزنی کی سلطنت کو للچائی
ہوئی نظروں سےدیکھنے لگے۔ راجہ جے پال نے تو باقاعدہ لشکر کشی کردی۔ محمود غزنوی
مقابلے میں نکلا اور زبردست معرکوں کے بعد اٹک کے مقام پر اسے شکست فاش دی۔ جے پال
اس شکست سے اس قدر دل شکستہ ہو ا کہ آگ میں جل مرا۔
جے پال کے بیٹے آنند پال نے باپ کی شکست کابدلہ لینے کی کوشش کی اور شکست کھا کر
کشمیر کی طرف بھاگ نکلا۔ اب اس نے قنوج، گوالیار اور اجمیر کے راجائوں سے مدد طلب
کی، انہیں مذہبی عصبیت پراکسایا اور محمود غزنوی کے خلاف معرکے کومقدس مذہبی جنگ
قرار دیا۔ چنانچہ پورے ہندوستان کے مردوزن اس جنگ میںحصہ لینے کیلئے تیاریاں کرنے
لگے۔ عورتوں نے زیور اتار کر دئے۔ بوڑھے جوانوں میں جنگ کا جذبہ ابھارنے لگے اور
جوان لشکر میں بھرتی ہونے لگے۔ پھرزبردست سازوسامان اور ہتھیاروں سے آراستہ ایک
بھاری فو ج محمود غزنوی کا مقابلہ کرنے کیلئے روانہ ہوئی۔ پشاور کے قریب زور کارن
پڑا۔ لیکن شکست ہوئی۔ ہزاروں آدمی لڑائی میں مارے گئے۔ آنند پال فرار ہونے میں
کامیاب ہو گیا، مگر اسے دوبارہ مقابلے کی جرأت نہ ہوئی۔
ایک اور معرکہ جے پال ثانی سے لاہور کے قریب ہوا۔ جس کے نتیجے میں لاہورتک کا علاقہ
محمود کی سلطنت میں شامل ہو گیا۔
۴۲۱ھ میں سلطان محمود غزنوی نے وفات پائی او ر اس کا بیٹا مسعود تخت نشین ہوا۔
۴۳۱ھ میں مسعو ہندوستان آیا تو اس کے ساتھ داتا گنج بخش ؒ تشریف لائے۔ آپ کا نام
علی، کنیت ابوالحسن، لقب گنج بخش اور سکونت غزنی کامحلہ ہجویرہے۔ حضرت عثمان ہجویریؒ
کے ہاں ۴۰۰ھ میں پیدا ہوئے۔
آپ کاخاندان علم وفضل میں یکتائے زمانہ تھا۔ چنانچہ ابتدائی تعلیم کسی مکتب اور
مدرسہ کی بجائے گھر ہی پر حاصل کی اور اپنے خاندان کے بزرگوں سے اکتساب فیض کیا۔
آپ نے جس ماحول میں آنکھ کھولی وہ علم اور روحانیت سے معمور تھا۔ ہر طرف علم کے
چرچے اور معرفت کی باتیں سننے کوملتیں۔ والدین خدا ترس اور پاکباز بزرگ تھے۔اس لئے
ابتدائے عمر ہی میں صاف ستھری زندگی گزارنے کی عادت پڑ گئی۔ والدین کی تربیت نے آپ
کے اخلاق کو پاکیزگی کے سانچے میں ڈھال دیا۔
ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپ نے منطق، فلسفہ، فقہ، تفسیر، حدیث اورمختلف
علوم متداولہ کی تکمیل کے لئے نامور اساتذہ اور شیوخ کے سامنے زانوئے تملذتہہ کیا۔
یہ غزنی کے شباب کادور تھا۔
سلاطین غزنی نے جہاں فتوحات کے ذریعے خزانوں کے خزانے تخت غزنوی کے سامنے لاکر ڈھیر
کئے تھے۔ وہاں علم وفضل سے بھی غزنی کو مالا مال کردیا تھا۔ ہر طرف سے علماء وفضلاء،
غزنی کارخ کرتے اور یہاں آکر داد کمال پاتے۔
داتا صاحبؒ نے ان اصحاب علم وکمال سے بحسن وخوبی استفادہ کیااور پھراپنے عہد کے
دوسرے بزرگوں سے علمی وروحانی فیض پانے نکل کھڑے ہوئے۔ آپ کے اساتذہ میں اس دور کے
عدیم النظیرامام، علم وفضل میں یگانہ، اصول و فروغ کے علم میں یکتا، طریقت ومعرفت
سے آشنا، کشف و کرامت، زہد وتقویٰ، صحت فراست کے اوصاف سے متصف بزرگ تھے۔
ان ممتاز علماء اور مشائخ سے علوم متداولہ حاصل کرچکے تو سیر وسیاحت کی زندگی
اختیار کرلی۔ ویسے بھی صوفیا، آیت ’’سیروافی الارض‘‘ کو حرز جاں بنا کہ گلی گلی،
نگر نگر گھومنا اور کرشمہ ہائے قدرت کے مشاہدے کو ضروری خیال کرتے ہیں۔ اس طرح
انہیںمختلف عادات واطوار اورمزاج وطبیعت کے لوگوں سے مل کر مردم شناسی کاملکہ حاصل
ہوتاہے۔ وہ کارخانۂ قدرت کی بوقلمونیوں سے حظ اٹھاتے ہیں، زندگی کی رنگا رنگیوں سے
لطف اندوز ہوتے اور علم وعمل کی دولت سے لوگوں کو فیض یاب بھی کرتے ہیں۔ یہی سیرو
سیاحت ان کے تبلیغی مشن میں مدد گار ثابت ہوتی ہے۔ اس طرح اس میدان میں نئے داخل
ہونے والے سیروسیاحت کے طفیل روحانیت کے ان سرچشموں تک پہنچنے میں کامیاب ہوجاتے
ہیں جو ان کی روحانی تشنگی دور کرنے کا باعث بنتے ہیں۔
یہی باد یہ پیمائی رنگ لاتی ہے تو اجمیر، پاک پٹن اوراوچ کی خانقاہیں آباد ہوتی
ہیں۔ ان خانقاہوں کی علم وعرفان سے معمور فضائیں ضرب الا اللہ سے گونجتی تھیں تو
ایک دنیا اسلام کے دامن عافیت سے لپٹ جایا کرتی تھی۔
حضرت علی ہجویریؒ مختلف شہروں میں جاتے۔ وہاں کے اساتذہ فن سے استفادہ کرتے، روحانی
مراکز سے رجوع کرتے اور آگے چل کھڑے ہوتے۔
شام کے بزرگ شیخ ابوالفضل محمد بن ختلیؒ سے ملاقات ہوئی تو قدم رک گئے۔ یہ بزرگ جید
عالم اور سلسلہ جنیدیہؒ کے نمایاں فرد تھے۔ سلوک ومعرفت میں ظاہر پرستی کو نفرت کی
نگاہ سے دیکھتے اور ان فقراء سے جو شرعی تکلفات کو بالائے طاق رکھتے، نہایت سختی سے
پیش آتے تھے۔ بہت کم غذا کھاتے اور عقیدت مندوں کو بھی اس کی تلقین کرتے۔ معمولی
مگر صاف ستھرا لباس پہنتے۔ پیوند لگے ہوئے کپڑے پسند کرتے کہ یہ رسول اللہ ﷺ کی
پسندیدہ عادت مبارکہ تھی۔ حضرت علی ہجویریؒ ان کے علم وفضل، زہد وتقویٰ سے اس قدر
متاثر ہوئے کہ بیعت کرلی اور ان کی خدمت میں رہنے لگے۔ ان صحبتوں میں علی ہجویریؒ
نے بہت کچھ حاصل کیا۔ معرفت وسلوک کے وہ مراحل طے ہوئے جنہوں نے ان کو گنج بخش ؒ کے
مقام اور مرتبے پرپہنچا دیا۔
مرشد سے آپ کی محبت کا اندازہ اس بات سے ہو سکتا ہے کہ بیعت ہونے کے بعد مرشد کی
وفات تک ان کے ساتھ رہے۔ بس ایک مختصر عرصے کے لئے مرشد ہی کے حکم سے لاہور آئے
اور تبلیغ اسلام کا فریضہ انجام دیا۔ شیخ محمد بن ختلیؒ کا انتقال ہوا تو ان کا سر
علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کی گود میں تھا۔
مرشد نے نصیحت فرمائی، ’’علی ہجویری ؒ! میں تمہیں اعتقاد کامسئلہ سمجھاتا ہوں۔ ذہن
نشین کرلو، ذہنی پریشانیوں سے نجات پالو گے۔ یاد رکھو! لوگ دنیا میں جوکام بھی کرتے
ہیں اور جو واقعات بھی پیش آتے ہیں، ان سب کا حقیقی فاعل اللہ تعالیٰ ہے۔ وہ اپنی
مصلحت اور پسند کے مطابق ان واقعات کو معرض ظہور میں لاتا ہے، اس لئے ان پر ناگواری
کااظہار نہیں کرناچاہئے اور جو واقعہ بھی رونما ہو، راضی برضا رہنا چاہیے۔ ‘‘ اتنا
کہہ کر ان کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔
مرشد کی وفات کے بعد آپ دوبارہ لاہور تشریف لائے اور یہاں شمع توحید روشن کی۔ ان
سے پہلے بھی علماء ومشائخ صنم کدۂ ہند میں اذان حق بلند کررہے تھے، مگر ان کی
آواز اس قدردھیمی تھی کہ ایک محدود حلقے کے علاوہ کوئی اور نہ سن رہا تھا۔ یہ آئے
توگویا فضامرتعش ہو گئی۔ حق کی صدا ان گوشوں میں بھی پہنچ گئی جو ابھی تک حق نا
آشنا تھے۔ حقیقت یہ ہے جب تک کان حق کی آواز سے بے بہرہ ہوں، ان سے قبول حق کی
توقع نہیں کی جاسکتی۔ حضرت علی ہجویریؒ یہاں پہنچے تو بُت پرستی کےخوگرپستی کاشکار
تھے۔ باپ بیٹے کی بیوہ اور بیٹا باپ کی بیوہ سے عقد کرلیتاتھا۔ بت پرستی کی کئی
قسمیں رائج تھیں جن میں ایک طریقہ شولنگ تھا جس میں جنسی اعضاء کی پرستش ہوتی تھی۔
ان بتوںکو غذا فراہم کرنے کے بجائے بکریوںاور بعض اوقات انسانوں کو ذبح کرکے ان کا
خون بتوں پراُنڈیلا جاتا۔ ستی کی رسم زوروں پرتھی جس کے مطابق مرُدے کو جلانے کے
لئے چتا روشن کی جاتی تو اس کی بیوہ بھی اس میں کود کراپنی زندگی کاخاتمہ کرلیتی۔
ذات پات کی تفریق کا یہ عالم تھا کہ شودروید نہیں پڑھ سکتے تھے اور انہیں مالا جپنے
کی اجازت نہ تھی۔ اگر کوئی شودر وید پڑھتے پایا جاتا تو اس کی زبان کاٹ لی جاتی۔
اعلیٰ ذات والے اپنے علاوہ دوسری قوموں کے افراد کو ’’ملیچھ ‘‘ یعنی ناپاک سمجھتے
تھے۔ ان کے ساتھ گفتگو تک سے پرہیز کرتے۔ سمندری سفر سے ان کے دھرم بھرشٹ ہو جاتا
تھا۔ گائے اور پپپل کو تقدس حاصل تھا۔ گوشت کھانا ان کے نزدیک مہاپاپ تھا، جس کا
کفارہ ممکن نہ تھا۔ یہ اور اس طرح کی دوسری باتیں ان کی قومی زندگی کاخاصہ بن چکی
تھیں۔
اس قسم کے ماحول میں اسلام کا توہم شکن پیغام پیش کرنا کتنا مشکل تھا، اس کا اندازہ
بخوبی کیاجاسکتا ہے۔ ایسے ماحول میں تبلیغ کے لئے ایسے شخص کی ضرورت تھی جو عالم
وعارف ہو، جس کا یقین او رایمان پہاڑ کی طرح محکم ہو، جس کا صدق وصفا، للہیت، بے
غرضی اور فقر کامل ہو۔ جس کے اندر بے پناہ جذب اور کشش ہو، جس کی روحانی قوت دشمن
کو د وست بنا سکے۔ جو آہنی عزم کا مالک ہو، حالات کاغلام نہیں ہو، جسے اپنے بلند
مقصد سے جنون کی حد تک عشق ہو اور جواپنے آرام وآسائش کی پروہ نہ کرتا ہو، ناقصاں
راپیرکامل اور کاملاں را راہنما… اس ماحول میں تبلیغ حق کے کام کے لئے موزوں ترین
شخصیت تھے۔
حضرت علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ لاہور تشریف لائے تو رنگِ گلشن نکھرنے لگا۔ صدیوں
کی توہم پرستی، ضعیف الاعتقادی، ذہنی غلامی، بندے پر بند ےکی حکومت نے انسانیت پر
جو تاریکی مسلط کر رکھی تھی، وہ آہستہ آہستہ چھٹنے لگی۔
غلغلۂ توحید بلند ہوا تو جھوٹی خدائیاں خود بخود سر کے بل گرنے لگیں۔ وہ لوگ جو
غربت اور افلاس کے ناطے برہمنیت کے استبداد کاشکار تھے، جاگ اٹھے اور حریت وآزادی
کے پرچم تلے جمع ہونے لگے جو سید علی ہجویریؒبلند کررہے تھے۔
لاہور میں آپ نے جہاں غیر مسلموں کو دعوت اسلام دی، وہاں مسلمانوں کی دینی تربیت
اور علمی اور عملی رہنمائی بھی کی۔ دن کاایک حصہ وعظ وارشاد اور دوسرا حصہ تعلیم
وتربیت میں گزارتے۔ رات کاکچھ حصہ تلقین وتبلیغ اور باقی حصہ عبادت الٰہی میںگزارتے۔
آپ کااندازِ تبلیغ اس قدرمؤثر اور دلنشین تھا کہ لاہور کا حاکم جو خود بھی
غیرمسلم تھا، آپ کے ہاتھ پرمسلمان ہو گیا۔ آپ صرف تسبیح بدست درویش نہ تھے بلکہ
متبر عالم اور حکمت شناس فلسفی بھی تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے پیغام کو آپ کے
پیشروئوں سے زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی۔ آپ نے سیروسیاحت کے ذریعے ایک زمانہ دیکھا
تھا۔ اس لئے ہر سطح کے لوگوں سے ان کی زبان میں بات کرتے۔ (جاری ہے)۔
کاپی رائٹ © تمام جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ دارالعمل چشتیہ، پاکستان -- 2022