دوسری شادی
۔مرسلہ : مولانا عبد الرحمٰن مد ظلہ (قطر)۔

یہ 2018ءکی ایک شام تھی جب میرے موبائل کی بَیل بَجی، کال ریسیو کی....ایک صاحب نے سلام دعا کے بعد پوچھا پروفیسر عبداللہ صاحب! کیا آپ رشتے کرواتے ہیں؟ میں نے کہا جی الحمد اللہ.. تو اگلا سوال غیر متوقع تھا کہ سَر مَیں آپ سے ملنا چاہتا ہوں، مَیں نے پوچھا کس سلسلے میں، تو جواب ملا کہ بہن کے رشتے کے سلسلے میں مدد درکار ہے۔ تین سال ہو گئے ہیں، کوئی رشتہ نہیں مل رہا، میں نے مکمل تفصیل مانگی تو اُنہوں نے مجھے تفصیل واٹس ایپ کر دی۔ اس کے ساتھ ہی ملاقات کرنے کی اِستدعا بھی کی۔مزید معلومات لینے سے پتہ چلا بھائی کریانہ کی دکان کرتے ہیں اور میرے علاقے کے نزدیک ہی تھے، تو ملاقات کے لئے چلا گیا، کافی اچھے شریف النّفس انسان تھے، بہن کے متعلق پُوچھنے پر بتایا کہ چار سال پہلے اس بھائی کے بہنوئی ایک حادثے میں اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں، تین بچّے ہیں اور سِتم یہ کہ ایک بچی معذور ہے۔ مَیں نے ان سے کہا کہ پاکستان میں دوسرے کے بچے کوئی نہیں پالتا۔۔۔ یہ سُن کر اس کی آنکھوں میں آنسو آرہے تھے اور کہنے لگے پروفیسر صاحب میری بیوی نے میری بہن اور اس کے بچوں کا جینا حرام کر رکھا ہے، عورت ہی عورت کی دشمن ہے۔ آپ کسی طریقے سے کسی بھی طرح رشتہ کروا دیں، احسان مندہوںگا،ہاتھ جو ڑتے ہوئے کہا...... مَیں حالات کو مکمل سمجھ چکا تھا لیکن مسئلہ بچّوں کا تھا، پھر ایک معذور بچّی کا ساتھ، بات کچھ سمجھ سے باہر تھی، خیر کوشش اور تسلی دے کر واپس آیا۔کافی سارے لوگوں سے بات کی سب تیار، مگر بچّوں کا سنتے ہی سب انکار کر جاتے تھے۔ تنگ آ کر پہلی بیوی کی موجودگی میں شادی کرنے والوں سے بات کی، تو اندازہ ہوا کہ اُن کو صِرف جسم کی ضرورت تھی اور بات یہاں بچّوں کی بھی تھی، جو بھی سنتا کہتا بچّے نہیں چاہئیں بھائی مجھے، سُنت پوری کرنی ہے،بچے نہیں پالنے، میں دوسرے کی اولاد کیوں پالوں؟
دوسرے کی اولاد کون پالتا ہے، دو ماہ اسی طرح گزر گئے۔ میرا ایک دوست، جو ہول سیل کا کاروبار کرتا تھا، کافی مالدار بھی تھا، ماشاء اللہ ۔۔۔۔۔ایک دن اس کی دکان پر بیٹھے بیٹھے خیال آیا، میں نے کہا رضوان بھائی! یار دوسری شادی کیوں نہیں کر لیتا؟ اس نے غور سے مجھے دیکھا، میری طرف جھانکنے لگا، تو میں نے کہا کیا ہوا؟ جواب ملا کہ عبداللہ بھائی دیکھ رہا ہوں آپ نشہ تو نہیں کرنے لگ گئے؟ کیوں مجھے مروانا چاہتے ہو؟ میں نے کہا رضوان یہ سنت ہے، آپ ماشاءاللہ سے اچھا کماتے ہیں، اللہ نے آپ کو بہت ساری نعمتوں سے نوازا ہے..... آپ کو ضرور شادی کرنا چاہئے اور کسی کا سہارا بننا چاہئے، تو اس کے انکار سے بھی مایوسی ملی، خیر چند دن بعد رضوان سے دوبارہ ملاقات ہوئی تو کافی مایوس لگ رہے تھے، مَیں نے پوچھا کیا بات ہے؟ کچھ پریشان دکھائی دے رہے ہیں۔ کہنے لگے دکان میں چوری ہو گئی۔حالات خراب ہو گئے ہیں، میری بیوی بھی جھگڑا کر کے میکے جا بیٹھی ہے اور مسلسل طلاق کا مطالبہ کر رہی ہے۔ اولاد نہیں تھی، میں نے افسوس کیا اور تسلی دینے کے ساتھ ہی کہہ دیا کہ رضوان اسی لئے آپ سےکہا تھا کہ دوسری شادی کر لیں، آج دوسری بیوی ہوتی تو آپ کو پہلی بھی نہ چھوڑ کر جاتی، اگر نہیں یقین تو دوسری شادی کر کے یتیم بچوں کے سر پر ہاتھ رکھیں، دیکھیں اللہ کی قدرت، پہلی بیوی بھی واپس آئے گی اور خوشحالی بھی، میری طرف دیکھنے کے بعد رضوان بھائی نے کچھ سوچا اور پوچھا کتنے بچے ہیں ان کے؟ مَیں نے کہا دو، ایک بیٹا ایک بیٹی، معذور بچی کا ذکر مَیں بھول چکا تھا، اس نے کہا ٹھیک ہے، آپ بات کریں جو میرے اللہ کو منظور، میں نے لڑکی کے بھائی کو کال کی اور شام کو اس کی دکان پرہی بلا لیا، ملاقات کروائی، گھر بار کاروبار دیکھنے کے بعد ہاں کر دیا، یوں قصہ مختصر ان کا نکاح پروفیسرز ریسرچ اکیڈمی ٹیم کے بھائی پروفیسر شیخ الحدیث ابو تراب مکی حفظہ اللہ نے پڑھایا اور ریحانہ اپنے بچّے لے کر رضوان کی زندگی میں خوشگوار جھونکے کی طرح شامل ہو گئی، رضوان بھائی نے ایک مکان جو کرایہ پر دیا ہوا تھا، خالی کروا کر ریحانہ اور بچوں کو وہاں شِفٹ کر دیا، تب پہلی بیوی کو پتہ چلا تو وہ آندھی کی طرح گھر آئی، گھر خالی دیکھ کر رضوان بھائی کو کال کر کے گھر بلایا اور میاں اور پہلی بیوی کی نوک جھونک ہوئی تو رضوان نے کہا تم نے نہیں رہنا تو بے شک مت رہو، طلاق لینی ہے، بے شک لے لو، اگر یہاں رہنا ہے، عزت سے رہو، جیسے پہلے رہتی تھی، لیکن یہ نہ کہنا کہ ریحانہ کو چھوڑ دو، یہ ممکن نہیں، پہلی بیوی نے جب دیکھا کہ تیر کمان سے نکل چکا ہے، تو وہ بھی خاموش ہو گئی، اب رضوان بھائی کی زندگی میں بہاریں آ چکی تھیں، ریحانہ نے اس کی زندگی میں رنگ بھر دئیے تھے، بچّے شہر کے بہترین سکول میں داخل ہو گئے، لیکن رضوان بھائی ریحانہ کی آنکھوں میں اَب بھی اُداسی دیکھتے اور شک کر چُکے کہ کوئی بات ضرور ہے، ایک دن اس نے مجھ سےذکر کیا، تو مَیں نے کہا اُداسی کیوں نہ ہو؟ اس کی ایک بچی اس سے دور ہے۔ رضوان نے کہا بچّی، کون سی بچّی، تو مَیں نے سب کچھ بتا دیا، رضوان نے سب سن کر مجھے ایک نظر دیکھا تو مَیں نے سَر جُھکا لیا ۔اسی دن شام کو رضوان بھائی، بیوی سے کہنے لگے تیارہو جاؤ، بچوں کو بھی تیار کرو، آج ہم نے آپ کے بھائی کے ہاں جانا ہے، ضروری کام ہے، بیوی کا دل دَھڑک اُٹھا، پوچھا تو جواب ملا جتنا کہا ہے، اتنا کرو، کچھ دیر کے بعد ہی وہ لوگ بھائی کے گھر تھے، وہاں رضوان نے ریحانہ کو کہا کہ معذور بیٹی کہاں ہے؟ اتنا سننا تھا کہ اسے لگا شاید کچھ غلط ہونے جا رہا ہے، وہ دوسرے کمرے میں ہے۔ رضوان نے دوسرے کمرے میں جا کر دیکھا تو غلاظت سے لَت پَت بچّی انتہائی کمزوری کی حالت میں پڑی تھی، رضوان بھائی اِشارہ کرتے ہوئے کہنے لگے ریحانہ بچی کے کپڑے بدلو یہ ہمارے ساتھ جائے گی۔۔۔ ریحانہ نے یہ سنا تو رضوان کے قدموں میں گِر گئی، بھائی نے رضوان کو گلے لگا لیا، یوں وہ بچی رضوان اپنے گھر لے آیا، اب وہ بچّی اور دوسرے دونوں بچّے رضوان، ریحانہ اور اس کی پہلی بیوی کی جان ہیں، رضوان دن دُگنی رات چُگنی ترقّی کر رہا ہے، ایک دن رضوان اور اس کی بیگم نے میری دعوت کی تو ریحانہ بھابی نے ہاتھ جوڑ کر کہا سر عبداللہ صاحب کبھی زندگی میں رشتے کروانے کا کام مَت چھوڑنا، میری رضوان سے شادی نہ ہوتی، تو میں آج بچوں کو قتل کر کے خُودکُشی کر چکی ہوتی، لوگوں کو بتاؤ عبداللہ بھائی، دوسری شادی وہ نعمت ہے جو شرطیہ خوشیاں دیتی ہے، خوشحالی لاتی ہے، میری جیسی لاکھوں ہیں جو دُکھوں بھری زندگی گزار رہی ہیں، اُن کو بھی خوشیاں دینی ہیں، کاش کہ یہ نعمت معاشرے میں عام ہو جائے ۔یہ واقعہ فرضی نہیں حقیقی ہے، نام ضرور تبدیل کئے گئے ہیں، اس میں کچھ شک نہیں۔۔۔ دوسری شادی واقعی ایک نعمت ہے اور ایسی عورت سے دوسری شادی جس کے بچے ہوں، زندگی میں حقیقی خوشیاں بھر دیتی ہے، مگر کیا کِیا جائے ایسے لوگوں کا، جو دوسری شادی کرنا چاھتے ہیں،مگر بچے نہیں پالنا چاہتے، جو دوسری شادی کے مزے تو لینا چاہتے ہیں مگر کسی کے سر دستِ شفقت نہیں رکھنا چاہتے، کیا یہ ہے سُنت؟ کہاں لے کے جائے وہ عورت ان بچوں کو قتل کر د ے یا کسی دریا میں پھینک دے؟ کیا کرے؟ زندگی موت کا کس کو علم، کب کس کو موت اپنے شکنجے میں لے لے؟ علم ہے نہیں نہ تو تمہارے بعد تمھارے بچوں کے ساتھ ایسا ہو، پھر کیا کرو گے؟ دیر مت کرو، آگے بڑھو اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے، دوسری شادی کرنا چاہتے ہو، تو بچوں والی سے کرو، پہلی بیوی کو بھی کہنے کے قابل ہو گے کہ سہارا دینے کی خاطر شادی کی ہے، بے سہارا بچوں کو باپ کا سہارا دو، یہ مت کہو کسی کے بچّے نہیں پال سکتا، کیا تم پالتے ہو بچّوں کو؟ ارے پالنے والی ذات تو اللہ کی ہے، اللہ سےڈرو، ڈ رو اس وقت سے جب اللہ تمہیں خود دکھائے کہ دیکھو کون پالتا ہے؟

کاپی رائٹ © تمام جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ دارالعمل چشتیہ، پاکستان  -- 2022




Subscribe for Updates

Name:

Email: