۔’’وہ
لڑکی جس کے ساتھ ایک جنّ نے شادی کرلی تھی‘‘۔ |
محمد زبیراعوان |
اس رات ہم نکلنے لگے تو اگلی بار انہوں نے اپنے ساتھ
انتہائی قیمتی خوشبو لانے کا بھی عندیہ دیا۔ اسی شام ماورا کی طبیعت بگڑی تو
پیرصاحب ملک محمد بشیر سہروردی قادری کو ٹیلی فون کیا گیا، وہ کچھ ہی دیر میں وہا ں
پہنچ گئے۔ سیدھا ماورا کے کمرے میں پہنچے، معمول کے مطابق اس کے بالوں کو پکڑا اور
دم شروع کردیا۔ اسی دوران انہوں نے اہلخانہ سے ایک چراغ، روئی اور تیل منگوالیا۔
اپنی جیب سے ایک تعویذنکالا اوراس کو روئی کے اندر لپیٹ دیا۔اب روئی سے بنے اس دیئے
کوماورا سے کچھ فاصلے پر رکھے گئے چراغ میں ڈال کر سلگا دیاگیا۔’’وہ لڑکی جس کے
ساتھ ایک جنّ نے شادی کرلی تھی۔‘‘
پیرصاحب خوداپناکام جاری رکھے ہوئے تھے،اس دیے نے جیسے ہی جلناشروع کیا تو ماورا نے
چیخیں مارنا شروع کردیں’’مجھے چھوڑدیں، اسے مت جلائیں، اسے آگ لگ گئی ہے، وہ
چلّارہاہے،بچنے کی کوشش کررہاہے،اب پورے جسم کو آگ نے لپیٹ میں لے لیا‘‘۔۔۔
پیرصاحب نے پوچھا ’’ اب کیا ہورہاہے؟‘‘ ماورا چراغ کی طرف ٹکٹکی باندھے دیکھے جارہی
تھی، اس نے بتایاکہ اب وہ تقریباً مکمل جل چکاہے، اس دوران پیر صاحب مسلسل اپنا عمل
بھی پڑھتے رہے۔چندلمحوں بعد ہی ماورا غنودگی میں جاناشروع ہوگئی، انہوں نے اس کے سر
سے ہاتھ اٹھایا اور اسے لٹادیا، اس دوران بھی انہوں نے ایک پھونک ماورا پر
ماردی۔مزید چند لمحوں کے بعد ماورا حسب معمول ملک محمد بشیر سہروردی قادری کے ادب
میں سنبھل کر اٹھ کر بیٹھ گئی اورآہستہ آہستہ دیا بھی ٹھنڈا ہوگیا۔
یہاں یہ امر بھی قابل ذکرہے کہ عمومی طورپر ایسی کہانیاں سننے کو ملتی ہیں کہ جنات
کو جلانے کیلئے پورے گھر یا مریض کو آگ لگادی یا پھر تشدد سے جنات نکالنے کے ڈرامے
کے دوران مریض کی جان ہی نکال دی، دراصل جنات کے چنگل سے کسی کو علم کی طاقت سے ہی
نکالا جاسکتا ہے اور روحانی شخصیات حتی الامکان جنات کو جلاکر مارنے سے گریز کرتی
ہیں لیکن اگر ایسا لازم بھی ہوتو اوپربیان کیاگیاآنکھوں دیکھا حال اپناتے ہیں۔
ماورا کی حالت ابھی تک گومگو کا شکار تھی، کسی وقت طبیعت بگڑ جاتی تھی اور خرابی
صحت کے معمول کے اوقات میں کچھ بھی نہیں ہوتاتھا، اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے
پیرصاحب نے بھی اپنی حکمت عملی بدلی، وہ کبھی سختی سے پیش آتے تو کبھی ابتدائی دنوں
کا طریقہ اپناتے ہوئے انہیں دم کرکے اور وجہ وغیرہ پوچھنے کے بعد منت سماجت کرکے ہی
بھیج دیتے، ایک جن نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ وہ پہلی دفعہ آیا ہے اور جنگل میں
جارہاہے جہاں اچھی خاصی جھاڑیاں ہیں اور کوئی انسان نہیں، وہ جنگل سے کبھی واپس ہی
نہیں آئے گا، اگر آیا بھی تو اس لڑکی کو تنگ نہیں کرے گا، شاید یہ شریف جن تھا جس
نے فوری جانے اور آئندہ نہ آنے کی یقین دہانی بھی کرادی اور پیرصاحب اور ماورا کے
بقول وہ دوبارہ کبھی نہیں آیا۔ملک محمد بشیر سہروردی قادری نے بتایا کہ ایسے واقعات
میں ایسا بھی ہوا کہ ایک دفعہ ایک جن نے کافی تنگ کیا اور سائلہ کے ہاتھ کی صورت
میں پیر صاحب کو بھی کلائی کا سامنا کرنا پڑا۔پھرجب ان کے علم کی طاقت کے آگے
زیرہوا تو مریضہ کو چھوڑ کر چلے جانے کی بھی یقین دہانی کرائی لیکن وہ کسی صورت اب
اس کی بات ماننے کو تیار نہیں تھے، اسے جلاکر ماردینے کی دھمکی بھی دی، جب اس جن نے
منت ترلے شروع کیے تو انہوں نے جواب میں اس سے آئندہ ہونے والی قرعہ اندازی کا بانڈ
نمبر مانگا۔ اس نے 6ہندسوں پرمشتمل نمبر دیا۔ اب جب میں یہ لکھ رہاہوں تو اگر میں
غلط نہ ہوں اور جہاں تک یادداشت کام کررہی ہے تو وہ نمبر970013تھا، چند دن گزر گئے،
جب قرعہ اندازی ہوئی تو بانڈ نمبر 970031پر پہلا انعام نکلا تھا، یہاں یہ بھی بتاتا
چلوں کہ پاکستان میں غیرقانونی طورپر کھیلے جانے والے جوا میں پہلے چار ہندسے ہی
یعنی 9700تھے جو بالکل ہی درست ثابت ہوئے تھے۔ جواکھیلنے والے حضرات سے دستیاب
معلومات کے مطابق اگر ایسے میں9700پر ایک سورپے کا جوالگایاگیا ہوتاتو ایک سو روپے
کے بدلے میں کم و بیش 70لاکھ روپے ملنے تھے۔یہ الگ بات ہے کہ پیر صاحب نے اس نمبر
پر اعتبار نہیں کیاتھا اور اسے جنات کی مختلف دیگر معاملات میں الجھانے کی کوشش
قراردیاتھا، بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔ واپس اپنی اصل کہانی کی طرف آتے ہیں، جنات
کے بارے میں یہ بھی کہا جاتاہے کہ یہ ماضی کے بارے میں مکمل بتاسکتے ہیں لیکن حال
کے بارے میں ان کی پیشن گوئی درست نہیں ہوتی، واللہ عالم الغیب۔نمبر دے کر جانے
والے جنّ کے چلے جانے کے بعد پیرصاحب نے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے بتایاکہ- میں
بچپن سے ہی وظائف اور نماز وعبادت کا شوقین تھا، نعتیں پڑھا کرتاتھااور یہاں تک کہ
کپڑے بھی پھٹے پرانے ہوتے، ایک مرتبہ مسجد میں (جواب عالی شان مسجد بن چکی ہے لیکن
ہمارے زمانے میں صرف کچھ اینٹیں رکھ کر ہی نشانی بنائی گئی تھی)دعا کی کہ یااللہ
نئے کپڑے دلادے، پھٹے پرانے کپڑوں میں تیرے سامنے کھڑاہوں، اس کے بعد سے مجھے یاد
نہیں کہ کبھی خود کپڑے خریدے ہوں، گھر والے لے آتے ہیں یا پھر کوئی ملنے جاننے والے
دے جاتاہے۔انہوں نے ہی بتایاکہ جنات سے محو گفتگو ہونا اور اپنی مرضی سے کام
کروالینا ہرکسی کے بس کی بات نہیں، اس کیلئے پہلے خود پاپڑبیلنے پڑتے ہیں اور فاقے
تک برداشت کرنا پڑسکتے ہیں،لہٰذا اس سے گریز ہی کرنا چاہیے۔(جاری ہے)۔
کاپی رائٹ © تمام جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ دارالعمل چشتیہ، پاکستان -- 2022