رزق اور اس کی قسمیں |
حضرت عبد الحمید ہاشمی مدظلہ (ملتان)۔ |
اللہ جل شانہ
نے ہر بندہ کا رزق اپنے ذمہ لیا ہے، وہ اس دنیا سے اس وقت تک نہیں جائے گا جب تک وہ
اپنے نصیب کارزق کھا نہیں لیتا۔
۔1۔
رزق مقسوم
۔2۔ رزق مذموم
۔3۔ رزق مملوک
۔4۔ رزق موعود
وہ رزق جوروزازل سے لوح محفوظ پرلکھ دیا گیاہے اسے رزق مقسوم کہاجاتا ہے اور اس میں
کمی وبیشی نہیں ہو سکتی ہے۔
رزق مذموم سےمراد وہ رزق ہے جوزندگی کی ضروریات پوری کرلینے کے بعد جمع کیاجائے۔
رزق مملوک وہ رزق ہے جو زندگی کی ضروریات پوری کرلینے کے بعد جمع کیاجائے ۔
رزق موعود وہ رزق ہے جس کااللہ جل شانہ نے اپنے نیک بندوں سے وعدہ کیاہے اور اس رزق
کا ملنا ضروری ہے۔ جیسا کہ باری تعالیٰ کافرمان ہے کہ میں اس جگہ سے تمہیں روزی
دیتا ہوں جس کا تمہیں گمان تک نہیں ہوتا۔
جو شخص اپنے رزق مقسوم پرراضی ہوا۔ وہ دراصل دھنی ہے اور جس نے صبروشکر کا دامن
ہاتھ سے نہ چھوڑاوہ حقیقت میں غنی ہے۔
دنیا کچھ لوگوں کے لئے سرائے ہے اور کچھ لوگوں کیلئے تجارت گاہ اور بعضوں کیلئے عزت
وشہرت حاصل کرنے کی جگہ اور بعض لوگوں کیلئے عیش وعشرت کاگھر ۔ چنانچہ ہر فرد اپنی
سوچ کے مطابق دنیا سے دلچسپی رکھتا ہے۔
جنات حضرت مالک بن دینار ؓ نے ایک دفعہ حضرت امام حسن ؓ سے دریافت کیاکہ دنیا
کاعذاب کیا ہے؟ آپؓ نے جواب دیا، دل کامر جانا۔ دوبارہ پوچھا کہ مرجانا کیاہوتاہے
؟ جواب میں فرمایا دنیا میں دل لگانا۔ پھرپوچھا کہ دل لگانا کیا ہوتاہے؟ اور یہ
دنیا کیا ہے ؟ آپؓ نے جواب دیاخانماں برباد لوگوں کی سرائے۔ یہ حال صرف ان لوگوں
کا ہے جوہمیشہ دنیا حاصل کرنے کیلئے سرگرداں اور پریشان ہوں اور دولت جمع کرنے کی
دھن میںمگن ہوںاور جس میں عقل کا سایہ تک موجود نہ ہو۔ دنیا میں جس کورزق مقسوم ملا۔
وہ دھنی ہے اور جس کو دنیا فانی میں رزق مذموم ملا اور اس نے صبروشکر سے گزار دیا
وہ غنی کہلایا۔ جس کو دنیا فانی میں رزق مملوک ملا اس کے لئے دنیا میں آسائش ہے
اور وہ تو نگر بنا ۔ مگر آخرت میں حساب وکتاب دینا ہو گا۔ جس کو دنیا فانی میں رزق
موعود ملا اور وہ ہنسی خوشی اپنا وقت گزار کردنیا سے روانہ ہوا۔ وہ اللہ جل شانہ
کاشکرگزار بندہ کہلایا۔ اس نے اللہ تعالیٰ کی تقسیم کا کبھی لوگوں سے گلہ شکوہ نہیں
کیا۔
حضور نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہے کہ جاہل کادل منہ میں ہوتا ہے اور اپنی جہالت کی وجہ
سے بے دریغ بولتا ہے۔ اس کے نزدیک ادب واحترام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ جبکہ
عقلمندوں کا منہ دل میںہوتا ہے۔ اول تو وہ خاموش رہتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر کم
بولتے ہیں اورگفتگو کا آغاز یاد اللہ سے کرتے ہیں اور اپنے آقا پر درود وسلام
بھیجتے ہوئے بات کرتے ہیں ۔
ابوجہل نے حضور نبی اکرم ﷺ کو کیادیکھا، صرف حضرت محمد بن عبداللہ او ر ہم نے آپ
کو کیا دیکھا، جناب حضرت محمد ﷺ بطور رسول اللہ اور کلمہ پڑھا لا الہ الا اللہ محمد
رسول اللہ اور ہم ایمان کی دولت سے نواز دیئے گئے۔ حکم الٰہی ایک فیصلہ ہے اور
فیصلہ فرض ہے اور پیروی کئے جانے کے لائق سنت ہے۔
جب کبھی آپ کے پاس انصاف کیلئے کوئی مسئلہ لایا جائے تو سوچ سمجھ کر قرآن وسنت کے
مطابق فیصلہ کرو۔ ایسا فیصلہ قطعی بے سود ہے جسے نافذ نہ کیاجاسکے۔ انصاف کرتے وقت
لوگوں میں برابری کاخیال رکھو تاکہ امیر تاجربے جا حمایت کالالچ نہ رکھے اور غریب
تمہارے انصاف سے نا امید نہ ہوں۔ مدعی کے ذمے ثبوت مہیا کرنا اور مدعا علیہ کے ذمے
قسم ہوتی ہے۔ اگر ایک مرتبہ آپ فیصلہ کرچکے ہوں تو کل اس فیصلہ پرعملدرآمد میں
رکاوٹ نہ بنو۔ جو چیز تمہیں قرآن وحدیث میں نہ ملے اور وہ آپ کے دل میں کھٹکتی ہو
تو اس کو بھی رائج نہ کرنا۔ ایسا نہ ہو کہ جو کام ایک بار شروع کردیا گیا وہ ہمیشہ
کے لئے قانون بن جائے اور روز جزاء اس کی پُرسش ہو اور آپ کو ندامت اٹھانا پڑے اور
تم سزا کے مستحق بن جاؤ۔
صداقت اور سچائی کو ہاتھ سے نہ جانے دو اور اس پرعمل جاری رہا تو اللہ جل شانہ کے
دربار میں سُرخرو ہو گے اور آپ کو خوش آمدید کہاجائے گا۔
اللہ اور اس کے رسولﷺ کافرمان ہے کہ نیک بندوں کی پیروی کرنا چاہئے۔ یہ وہ لوگ ہوتے
ہیں جو دین پرچلتے ہیں۔ انصاف کو پسند کرتے ہیں۔ دیانتدار، صاحب امانت اور متقی
ہوتے ہیں۔ صاحب علم، عقلمند، بُردبار خوش پوش اور لباس کی طرح دل بھی صاف اور پاک
رکھتے ہیں۔ کتاب اللہ اور نبی اکرم ﷺ کی شریعت پر عمل پیراہوتے ہیں۔آئمہ راشدین کی
اقتداء اور اجماع امت کی رعایت رکھتے ہیں ۔ اللہ پاک ایسے لوگوں کو اپنے انعام
واکرام سے نہ صرف دنیا میں نوازتے ہیں بلکہ آخرت میں بھی ان کو عزت واحترام سے خوش
آمدید کہاجائے گا۔ قیامت کے دن اللہ پاک نے انصاف والوں کے لئے جنت کے دروازے جُدا
رکھے ہیں ۔ جنت کے دروازوں پر دربار ان کے انتظار میں ہوں گے کہ انہیں خوش آمدید
کہیں گے اور وہ جس دروازے سے چاہیں جنت میں داخل ہو سکیں گے۔
کاپی رائٹ © تمام جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ دارالعمل چشتیہ، پاکستان -- 2022