تصوف سلطان العارفین شیخ
 جنید بغدادی
رحمۃ اللہ علیہ کی نظر میں
شیخ الطریقت حضرت مولانا ڈاکٹر محمد ادریس حفظہ اللہ

شیخ جنیدؒ گروہ صوفیہ کے سردار اور بڑے زبردست عالم، فقیہ، صوفی اور خطیب تھے۔ تصوف کی پوری تاریخ پر ان کے زبردست اثرات ہیں۔ انہوں نے تصو ف کو ایک نئی جہت عطا کی اور تصوف کو ایسا رُخ اور منہاج دیا کہ بعد میں بعض بے اعتدالیوں کے باوجود متفقہ طو رپر تمام صوفیہ دائرہ شریعت سے باہر نہ جاسکے اور تصوف کی اس حقیقت کو مبرہن کرتے رہے کہ تصوف شریعت سے ماوراء کچھ نہیں ہے ۔ جو کچھ ہے، شریعت کے دائرے میں ہی ہے۔
تصوف کا یہ جنیدی منہاج شیخ جنیدؒ کی شخصیت اور ان کے تصورات کا آئینہ دار ہے۔ انہوں نے شریعت کو بہ ہرصورت اوّلیت دینے اور شریعت کی پابندی کو طریقت کی اصل بنانے میں سب سے اہم کردار ادا کیا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اس میں دیگر صوفیہ کا عمل بالکل نہیں ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ بہت سے صوفیہ نے اس کے لئے کوشش کی لیکن مجموعی طور پر شیخ جنیدؒ کی کاوشیں زیادہ ہیں اور انہوں نے جس زور وقوت اور معقولیت کے ساتھ شریعت کو طریقت پر اولیت اور شریعت کو تصوف کی روح قرار دیا ہے، اس کے اثرات زیادہ ہے۔
تصوف کی تاریخ باضابطہ بغداد میں عہد عباسیہ سے شروع ہوتی ہے لیکن تصوف کے افکار پہلی صدی سے پروان چڑھنے لگے تھے۔ چنانچہ بہت سے صحابہ کرامؓ میں ایسے افکار موجود تھے جو بعد میں تصوف کے ارتقاء کے عوامل بنے۔ اور صحابہ کرامؓ کا عمل تو بعد میں ہے، خود قرآن حکیم میں ایسی بے شمار آیات ہیں جو صوفیہ کیلئے ہدایت نامہ ہیں۔
چنانچہ قرآن پاک میں بہت سے ایسے اوصاف بیان ہوئے ہیں جو صوفیہ کے یہاں خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔ اس طرح بہت سی آیات ہیں جو ان کے افکار لئے بنیاد فراہم کرتی ہیں۔ صحابہ کرامؓ اور تابعینؒ کے دور میں بعض حضرات ان آیات اور ان اوصاف کو خصوصی اہمیت دینے لگے اور پھر بتدریج ان کی ترجیحات بعض معاملات میں دوسرے مسلمانوں سے الگ ہوگئیں۔
کبار تابعینؒ میں حضرت حسن بصریؒ ایسی شخصیت ہیں، جنہوں نے ایک سرگرم پر عملی زندگی گذارنے کے بعداپنی زندگی کی ترجیحات تبدیل کیں اور بعض ایسے اعمال جن کو وہ اولین ترجیح دیتے تھے، ان کی جگہ بعض دوسرے ایسے اعمال کو ترجیح دینے لگے جو صوفیہ کے لئے بنیاد بنے۔
صوفیہ کہتے ہیں کہ ان کے افکار کا سلسلہ حضرت حسن بصریؒ سے حضر ت علیؓ تک پہنچتا ہے اور ان سے جناب رسول اللہ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک۔ حضرت حسن بصریؒ مفسر اور محدث کی حیثیت سے مشہور ہیں۔ ان کے تلامذہ میں بعض تو بڑے محدث ہیں اور بعض ایسے ہیں جنہوں نے علم وفضل کی روایت کے بجائے زہد و عبادت کی روایت اختیار کی، زندگی کی آسائشوں کو ترک کیا، سادہ لباس اختیار کیا اور لوگوں سے میل جول رکھنے میں بھی بہت فراخ نہ بنے جیسے فرقہ سنجی وغیرہ۔
حضرت حسن بصریؒ کے عہد تک ایسے لوگ زہاد یا عباد یا بکائین (بہت رونے والے ) کہلاتے تھے اور اس وقت یہ کوئی روایت بھی نہ بنی تھی ، لیکن ان کے تلامذہ میں یہ مستقل روایت بن گئی اور ان کے تلامذہ میں سے کچھ اسی کے علم بردار بن گئے۔ سادہ لباس میں اکثر اُون کا لباس پہننے لگے جو اس وقت غریبوں کا لباس سمجھا جاتا تھا۔
حسن بصریؒ کے تلامذہ دوسری صدی کے زہاد میں شمار ہوتے ہیں۔ اس صدی میں بعض اور لوگوں نے بھی اس روایت کو فروغ دیا اور تصوف کے افکار میں انفرادیت پیدا ہونی شروع ہوئی۔ مثلاً اس عہد میں لفظ محبت کا اطلاق زیادہ بڑھ گیا اور اتباع شریعت میں جو محبت کا عنصر ہے، اس کو زیادہ اہمیت دینے لگے۔ پھر محبت کا یہ استعمال اتنا بڑھا کہ وہ عبادت جو کسی امید یا خوف کی بناپر کی جائے، وہ عبادت ان لوگوں کے نزدیک ناپسندیدہ قرار پائی اور محبت کا معیار یہ بن گیا کہ وہ محبت جو جنت کی طلب اور جہنم کے خو ف سے خالی ہو، وہ معیاری عبادت ہے۔ اس طرح کے افکار حضرت ابراہیم بن ادہمؒ نے بیان کئے اور اگر حضرت رابعہ بصریہؒ کی روایت درست ہے تو انہوں نے اس دور میں جنت کو جلانے اور جہنم کو بجھانے کی بات کہی تھی۔
اس صدی میں لفظ تصوف کا باضابطہ اطلاق بھی شروع ہوگیا اور جو لوگ التزاماً صرف (اون) کا کپڑا پہنتے تھے ان کو صوفی کہا جانے لگا۔ اس صدی میں تصوف کے حوالے سے جو دوسرے افکار پروان چڑھے، ان میں زہد کا مخصوص تصور یعنی جائز چیزوں سے بھی کم سے کم انتفاع کرنا اور اس کو اعلیٰ پائے کی دینداری قرار دینا، توکل کا یہ مفہوم کہ وسائل حیات صرف اتنے ہی استعمال کئے جائیں، جتنے میں کم سے کم ضروریات پوری ہوجائیں۔ بلکہ بعض نے یہ بھی کہنا شروع کیا کہ اللہ تعالیٰ کے وعدے پر دل کا مطمئن ہونا توکل ہے، اس سے عندیہ یہ تھا کہ تلاشِ رزق کے لئے جدوجہد اور کوششیں توکل کے منافی ہیں۔

کاپی رائٹ © تمام جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ دارالعمل چشتیہ، پاکستان  -- 2022




Subscribe for Updates

Name:

Email: