حلقۂ مریدین میں
۔’’مرشد کامل کی محبت‘‘ کے انداز۔
شیخ الطریقت حبیب الامت حضرت مولانا ڈاکٹر محمد ادریس حفظہ اللہ

حضرت بابا فریدالدین مسعود گنج شکرؒ کے مشہور خلیفہ حضرت جمال الدین بانسویؒ کے منجھلے صاحبزادے اور جانشین شیخ برہان الدینؒ کے نامور صاحبزادے شیخ قطب الدین منور ؒنے ابتدائے حال سے انتہائے سلوک تک سلطان المشائخ حضرت نظام الدین اولیاءؒ کی نظر شفقت میں پرورش پائی۔آپؒ پر سلطان المشائخ ؒکی خاص توجہ تھی اور اس لحاظ سے آپؒ تمام احباب میں ممتاز تھے۔ آپؒ کو اور شیخ نصیرالدین محمودؒ (چراغ دہلی) کو سلطان المشائخ ؒنے ایک ہی دن خلافت عطا فرمائی اور فرمایا کہ تم دونوں بھائی ایک دوسرے سے بغل گیر ہوجائو اور ایک دوسرے کو مبارک باد دو۔ چنانچہ صاحب سیر الاولیاء نے اس کا تفصیلی ذکر بیان کیا ہے ۔ کہتے ہیں کہ قصبہ بانس میں چار قطب آپ ؒہی کے مقبرہ میں آرام فرماتے ہیں۔ اول شیخ جمال الدین بانسویؒ، دوم شیخ احمدؒ ، سوم شیخ برہان الدین بانسوی ؒ(شیخ جمال الدین بانسویؒ کے جانشین اور منجھلے صاحبزادے )،چہارم شیخ قطب الدین منورؒ (جن کا ذکر مندرجہ بالا سطور میں کیاجارہا ہے یعنی شیخ برہان الدین بانسویؒ کے نامور صاحبزادے اور شیخ جمال الدینؒ بانسوی کے پوتے) شیخ قطب الدین منورؒ کو اپنے مرشد کامل سلطان المشائخ حضرت نظام الدین اولیاءؒ سے بے حد محبت تھی۔ جب کبھی آپ سلطان المشائخ ؒکا نام لیتے تھے یا سنتے تھے تو آپؒ پر بے اختیار گریہ طاری ہوجاتا تھا۔ کسی نے خوب کہا ہے:
؎نہ تنہا عشق از دیدار خیزد بساکیں دولت از گفتار خیزد
ترجمہ: عشق صرف دیدار سے نہیں پیدا ہوتا۔بلکہ کبھی کبھی محبوب کے ذکر مبارک سے بھی عشق پیدا ہوجاتاہے۔
خلاصہ یہ کہ جب تک مرید کو پیر کے ساتھ اتنا عشق ومحبت نہ ہو فیض کیسے حاصل ہو؟
شیخ برہان الدین غریبؒ سلطان المشائخ ؒسے اس درجہ اعتقاد ومحبت رکھتے تھے کہ جب تک شیخ حیات رہے، آپؒ نے کبھی غیاث پورہ کی طرف پیٹھ نہ کی۔ صاحب سیر الاولیاء لکھتے ہیں کہ یہ بات یار ان اعلیٰ میں سے کسی کو حاصل نہ تھی۔ آپ دل دادگان عشق ومحبت کے لئے مرہم اور درماندگان دردِ عشق کے لئے دوا تھے۔
سلطان المشائخ ؒکے دس نامور خلفاء میں ایک مولاناوجیہ الدین یوسف ثانیؒ تھے۔شیخ برہان الدین غریبؒ آپ ہی کی بدولت سلطان المشائخ ؒکی خدمت میں حاضر ہوئے تھے۔ آپؒ کو سلطان المشائخ ؒسے عجیب عشق تھا۔ ایک دن آپؒ سرائے دھاری سے، جو دہلی سے چھ سات کوس دور ہے، حضرت سلطان المشائخ ؒکی زیارت کے لئے روانہ ہوئے۔ چند قدم چلنے کے بعد آپ ؒکے دل میں خیال آیا کہ پیری خدمت میں سرکے بل جانا چاہئے۔ بس آپ نے غیاث پورہ کی جانب سر کے بل چلنا شروع کیا۔ چنانچہ صدق اعتقا د کی وجہ سے تیسری قلابازی کے بعد آپ ؒنے اپنے آپ کو سلطان المشائخ ؒ کے دروازے پر پایا۔ سلطان المشائخ ؒ نے آپؒ کو چندیری بھیج دیا، جہاں آپؒ رشد وہدایت کے کام میں لگے رہے او روہیں آپؒ کا وصال ہوا۔
شیخ برہان الدین غریبؒ کا شمار سلطان المشائخ ؒکے نامور خلفاء میں ہوتا ہے۔ آپؒ دولت آباد چلے گئے۔ وہیں ۱۲؍ صفر ۷۳۲ھ میں آپؒ کا وصال ہوا۔ سلطان المشائخ ؒکے وصال کے بعد آپؒ محض چند برس حیات رہے۔ آپ ؒکے نامور خلفاء میں سب سے مشہور شیخ زین الدینؒ ہیں جن کا دولت آباد میں عظیم الشان مقبرہ ہے۔ جس کے ایک گوشہ میں اورنگ زیب عالمگیر مدفون ہیں۔ شیخ زین الدینؒ اپنے پیر کامل شیخ برہان الدین غریبؒ کے وصال کے بعد مسند نشین ہوئے او ران کی بدولت سلسلہ عالیہ چشتیہ نظامیہ دکن میں بہت پھیل گیا ۔ شیخ برہان الدین غریبؒ کے ایک دوسرے نامور مرید شیخ رکن الدین حمادؒ ہیں جو کتاب شمائل الاتقیاء کے مصنف ہیں۔ شیخ برہان الدین غریبؒ کے بڑے بھائی قاضی مستجبؒ، حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکرؒ کے مرید تھے۔ مقامی لوگ انہیں زریں زر بخش کے نام سے یاد کرتے تھے۔ ان کا مزار بھی دولت آباد میں ہے۔ شہر برہان پور بھی شیخ برہان الدین غریبؒ کے ہی نام نامی پر آباد ہوا تھا۔
 

کاپی رائٹ © تمام جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ دارالعمل چشتیہ، پاکستان  -- 2022




Subscribe for Updates

Name:

Email: