اللہ ﷻ ہی ہر تدبیر کا
نتیجہ مرتب فرماتے ہیں
خالد مقبول حفظه اللہ

میری روحانی علاج کے شعبہ سے پچیس سال سے زائد کی وابستگی ہے۔ طرح طرح کے مسائل میں مبتلا مریضوں سے واسطہ پڑا۔ کئی قسم کی خواہشوں کے طالبین سے واسطہ پڑا۔ ایک بات جس کا ذکر پہلے رسائل میں بھی کر چکا ہوں اور یہاں بھی ضروری سمجھتا ہوں، وہ کچھ نہ کچھ حد تک زیادہ تر سائلین یا مریضوں میں دیکھی کہ وہ روحانی معالج یا عامل کو کسی نہ کسی حد تک یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اگر چاہے تو ان کے لیے بہت کچھ کر سکتا ہے۔ اور اس ’’بہت کچھ‘‘ میں یہ بھی شامل ہے کہ’’ اگر روحانی معالج چاہے تو ان کا مسئلہ حل کر سکتا ہے یا ان کی حاجت پوری کر سکتا ہے۔‘‘
یہ عقیدہ رکھنا انتہائی غلط ہے اور اس کی اصلاح ہونا بہت ضروری ہے۔ ہر تدبیر کی کچھ حدود ہوتی ہیں۔ اسی طرح روحانی علاج کی بھی اپنی حدود ہیں۔ ان حدود سے تجاوز کسی طرح بھی نہیں ہو سکتا۔
اسی غلط عقیدے کی وجہ سے عاملین اور پیرانِ عظام بہت بدنام ہیں۔ اس میں صرف قصور عوام کا ہی نہیں، خود ان عاملین، روحانی معالجین اور پیرانِ عظام کا بھی ہے جو عوام کےاس عقیدے کی اصلاح نہیں کرتے اور اگر کوئی ایسا کہہ دے کہ ’’حضور ! آپ چاہیں تو کیا نہیں کر سکتے۔ بس میرے اوپر نظرِ کرم کریں‘‘ تو وہ پھولے نہیں سماتے۔ ان کو چاہیے کہ ایسے کہنے والے کو واضح الفاظ میں کہیں کہ ’’ہم سے جو ہو سکا کریںگے، آگے اللہ کی مرضی۔ آپ بھی دعا کریں، میں بھی دعا کروں گا۔‘‘ حالانکہ حقیقت کا ان کو بھی اچھی طرح پتہ ہوتا ہے کہ نتیجہ مرتب کرنا ان کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ فرعون بھی بہت دعوے کرتا تھا مگر اکیلے میں اللہ تعالیٰ سے اس نے کیا کہا تھا؟ تحقیق کرنے والوں کو دعوت ہے کہ وہ خود اس واقعے کو پڑھیں۔
اب اصل حقیقت کو اچھی طرح سمجھیے اور اپنا عقیدہ بھی درست کریں۔ انسان کسی بھی حاجت کے لیے صرف اور صرف تدبیر ہی کر سکتا ہے۔ تدبیر اعلیٰ سے اعلیٰ بھی ہو سکتی ہے اور ناقص ترین بھی۔ البتہ جو بھی تدبیر کی جاتی ہے، اس کا نتیجہ اللہﷻ ہی مرتب فرماتے ہیں۔ کبھی اعلیٰ سے اعلیٰ تدبیر کا نتیجہ سائل کے مخالف اور کبھی ناقص ترین تدبیر کا نتیجہ بھی سائل کے حق میں۔ یہ صرف اللہﷻ کی ہی مرضی ہے۔ اس نتیجہ مرتب فرمانے میں کسی کو بھی دخل نہیں ہے۔ اگر کوئی بھی ذرا برابر بھی یہ سمجھتا ہے کہ نتیجہ مرتب کرنے میں اللہﷻ کے علاوہ کسی کا کوئی دخل ہے تو اسی کو ’’شرک کرنا‘‘ کہیں گے۔
جہاں تک یہ بات ہے کہ کسی بزرگ سے، کسی ولی سے ، کسی دربار پر جا کر، کسی مزار پر یا قبر پر جا کر، کسی بابا جی کے پاس جا کر کوئی مسئلہ بتایا، کوئی حاجت بتائی اور انہوں نے دعا دی، کوئی تعویذ دیا یا کوئی عمل دیا اور مسئلہ حل ہو گیا یا حاجت پوری ہو گئی تو اس کے پیچھے بھی یہی حقیقت ہے کہ جس کے پاس گئے، اس نے جو تدبیر کی ، اللہ ﷻ نے ان کی عزت رکھ لی اور نتیجہ سائل کے حق میں کر دیا۔ لیکن یہ سمجھنا کہ ان بزرگ نے ہی کیا یا ان بزرگ کی مرضی سے ہوا اور اللہﷻ کو پسِ پشت ڈالنا … شرکیہ عقیدہ ہے۔
اسی طرح کبھی یہ آزمائش کے طور پر ہوتا ہے یعنی کسی ایسے بندے کے پاس گئے، جو بظاہر گناہوں میں مبتلا ہو، نشے کا عادی ہو، نماز روزہ کا دور دور تک کوئی نشان نہ ہو اور وہ کوئی تدبیر کرے اور فورًا سائل کا کام ہو جائے۔ اب سائل یہ سمجھے کہ وہ بندہ بہت پہنچا ہوا ہے۔ وہ چاہے تو کچھ بھی کر سکتا ہے۔ یہی تو امتحان ہے کہ سائل کیا عقیدہ رکھتا ہے؟ اور اگر سائل اس امتحان میں ناکام ہو جائے تو وہ مشرک ٹھہرا اور ایمان کی نعمت سے محروم ہوا۔
اسی بات کو سب بزرگوں نے بیان کیا ہے کہ تدبیر کو ہی مؤثر نہ سمجھا جائے، تدبیر کرکے نتیجہ کے لیے اللہﷻ سے رجوع کیا جائے۔ہر تدبیر کے بعد یہ دعا کی جائے’’یااللہ! میں جو تدبیر کر سکتا تھا، کر لی، اب اس کا نتیجہ میرے حق میں مرتب فرما دیجئے۔‘‘ اور یہ اصول صرف روحانی تدابیر کے بعد ہی نہیں، ہر تدبیر چاہے وہ دنیاوی ہی کیوں نہ ہو، اپنایا جائے۔ دعا کرتا ہوں اللہﷻ صحیح عقیدہ اور صحیح سمجھ عطا فرمائیں۔آمین

کاپی رائٹ © تمام جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ دارالعمل چشتیہ، پاکستان  -- 2022




Subscribe for Updates

Name:

Email: