تصوف کے اصول صحیحہ قرآن اور حدیث میں موجود ہیں۔ جو لوگ سمجھتے ہیں کہ تصوف قرآن اور حدیث میں نہیں ہے بالکل غلط ہے یعنی غالی صوفیہ کا بھی یہی خیال ہے اور خشک علماء کا بھی مگر دونوں غلط سمجھے۔ خشک علماء تو یہ کہتے ہیں کہ تصوف کوئی چیز نہیں یہ سب واہیات ہے بس نماز روزہ حدیث سے ثابت ہے اسی کو کرنا چاہئیے اور غالی صوفی یہ کہتے ہیں کہ قرآن و حدیث میں تو ظاہری احکام ہیں تصوف علم باطن ہے۔ ان کے نزدیک نعوذ باللہ قرآن و حدیث ہی کی ضرورت نہیں۔ غرض دونوں فرقے قرآن و حدیث کو تصوف سے خالی سمجھتے ہیں۔جاہل پیروں اور دکاندار صوفیوں نے یہ مسئلہ گھڑا ہے کہ شریعت اور طریقت دو چیزیں ہیں اور اس زور شور سے اس کو شہرت دی کہ عوام تو عوام، خواص تک میں اس کا رنگ چھا گیا ہے۔ حالانکہ یہ تمام تر لغو اور بے معنی ہے۔ حکیم الامت مجدد الملت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نے تمام عمر لوگوں کو یہی تلقین فرمائی ہے کہ طریقت عین شریعت ہے۔ احکامِ الٰہی با خلاص تمام تعمیل و تکمیل ہی کا نام طریقت ہے اور یہی خواصِ اُمت کا مذہب ہے اور جس نے اس کے سوا کہا وہ دین کی حقیقت سے جاہل اور فن سلوک سے نا آشنا ہے۔ امت مسلمہ کو صحیح اسلامی تصوف سے روشناس کرانا اس مجلہ’’خزینہ تصوف‘‘ کا اولین مقصد ہے۔

 

 

 

 

 

 

 

کاپی رائٹ © تمام جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ دارالعمل چشتیہ، پاکستان  -- ۲۰۱۳



Subscribe for Updates

Name:

Email: