ہمارے اس دور میں حق تعالیٰ نے جن بزرگوں سے خدمتِ دین اور لوگوں کی رشدوہدایت کا کام لیا، ان میں حضرت مولانا اشرف علی تھانوی قدس سرہ کا نام سر فہرست نظر آتا ہے۔ یوں تو حضرت مولانا رحمہ اللہ نے دین کے ہر شعبہ میں ایسی خدمات انجام دی ہیں، جن سے بلا مبالغہ صدیوں تک استفادہ کیا جاسکتا ہے، لیکن حضرت رحمہ اللہ  کا اصل جوہر سلوک و تصوف کی راہ کو آسان کرنے اور اس کی صحیح حقیقت آشکار کرنے اور اس بارے میں جو غلط اعمال، غلط عقیدے، بدعات، غلو اور دوسرے مفاسد پیدا ہو گئے تھے، ان کو صاف کرنے میں کھلتے ہیں۔ سالکوں کی تربیت و تزکیہ کے معاملات میں تو مولانارحمہ اللہ  کی ایک منفرد شان تھی، اس اعتبار سے مولانا یقیناً حکیم الامت کی حیثیت رکھتے تھے۔
حضرت مولانا ایک ولی کامل حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی قدس سرہ کے اجل خلفاء میں سے تھے اور خود بھی ایک بڑے عالم دین اور شیخِ طریقت تھے۔ حضرت رحمہ اللہ  کو تصوف و سلوک سے خاص مناسبت تھی، یہی وجہ ہے کہ آپ کے مواعظ و ملفوظات میں زیادہ تریہی موضوع نظر آتا ہے، عوام تو پھر عوام ہیں، بڑے بڑے مشائخ طریقت بھی تصوف و سلوک کے متعلق غلط فہمیوں اور غلط کاریوں کا شکار تھے۔ حضرت مولانا تھانوی رحمہ اللہ نے بڑی جستجو، تحقیق اور گہری نظر سے ان مفاسد کا مطالعہ کیا۔ اپنے مواعظ میں اور ملفوظات میں اور اپنے مریدین کے سوالات اور اشکلات کے جواب میں بڑی تاکید اور تکرار کے ساتھ سلوک کی اصل حقیقت کو بیان کیا اور طالبانِ خدا کے دل میں اور مشائخ کی خانقاہوں میں اس سلسلے میں جو بدعات اور غلط عقائد پیدا ہو گئے تھے، ان کا ازالہ فرمایا۔ حکیم الامت رحمہ اللہ  کی تعلیمات وخدمات کو امت کے سامنے پیش کرنا ’’ الاشرف ‘‘ کی امتیازی خصوصیت ہے۔

 

 

 

 

 

 

 

کاپی رائٹ © تمام جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ دارالعمل چشتیہ، پاکستان  -- ۲۰۱۴



Subscribe for Updates

Name:

Email: