اس نے سب سے گندامگ اٹھالیا،وہ مگ کو ہونٹوں تک لے کر آیا،ایک لمبا سپ لیا،آنکھیں بند کر کے طویل سانس لی اور پروفیسر صاحب کی طرف دیکھ کر بولا ’’سر آپ کی کافی بہت شاندار ہے‘‘۔ بوڑھے پروفیسر نے باقی لوگوں کی طرف دیکھا،تمام لوگوں نے مگ ہاتھوں میں اٹھا رکھے تھے اور پروفیسر کی طرف دیکھ رہے تھے۔پروفیسر نے ان سے پوچھا ’’کافی کیسی ہے؟‘‘ تمام لوگوں نے مگوں کی طرف دیکھا اورشائستگی کے ساتھ بولے ’’اچھی ہے سر ‘ ‘۔ پروفیسر نے پوچھا ’’میٹھا کیسا ہے؟‘‘ وہ طالب علم فوراً بولا ’’مناسب ہے۔‘‘ ایک نے ملازم کی طرف مڑ کر کہا ’’مجھے دو چمچ چینی اور لادو‘‘جبکہ باقی تمام لوگ کندھے اچکا کر خاموش بیٹھے رہے۔پروفیسر نے اس کی طرف دیکھا،وہ بولا’’سر کافی میں چینی نہیں تھی اور میں پھیکی کافی پسند کرتا ہوں‘‘۔پروفیسر نے ستائش بھری نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔
یہ تمام لوگ زندگی میں کامیاب تھے۔ان میں سے کچھ انجینئر تھے،کچھ ڈاکٹر تھے،کچھ بزنس مین تھے،کچھ بیورو کریٹس تھے اور دو سیاستدان تھے۔یہ چالیس سال کے پیٹے میں تھے اور یہ زندگی میں جو کچھ کرناچاہتے تھے،یہ کر چکے تھے لیکن اس تمام تر کامیابی کے باوجود ان کی زندگی میں کسی چیز کی کمی تھی۔یہ مضطرب تھے،یہ بے چین تھے اور ان کی زندگی بے کیف تھی۔یہ لوگ اک دن اکٹھے بیٹھے،انہوں نے اپنے مسائل ڈسکس کئے اور اس کے بعد فیصلہ کیا۔یہ اپنے پروفیسر کے پاس جاتے ہیں،یہ ان سے اپنی بے کیف زندگی ڈسکس کرتے ہیں اور پروفیسر صاحب جو مشورہ دیں،یہ اس پر عمل کریں گے۔یہ پروفیسر کے پاس پہنچ گئے۔پروفیسر ایک مطمئن انسان تھے۔یہ ایم اے کے بعد کالج میں لیکچرار بھرتی ہوئے،پی ایچ ڈی کی،کالج سے یونیورسٹی آئے،اپنی ایک سٹوڈنٹ کے ساتھ شادی کی،تین بچے پیدا ہوئے اور یہ مزے سے زندگی گزاررہے ہیں۔یہ سب لوگ پروفیسر صاحب کے پاس پہنچ گئے۔پروفیسر کے پاس اس وقت ایک اور سٹوڈنٹ بھی بیٹھا تھا۔یہ پروفیشن کے لحاظ سے فوٹو گرافر تھا اور سماجی رتبے میں ان سب سے کم تھا۔اس کے پاس بڑی گاڑی تھی،بڑا گھر تھا اور نہ ہی لمبی چوڑی تنخواہ تھی لیکن اس کے باوجود یہ ایک خوشگوار زندگی گزاررہا تھا۔یہ لوگ پروفیسر کو اپنے مسائل بتارہے تھے، پروفیسر بڑے غور سے ان کی گفتگو سن رہا تھا۔نوکر اس دوران کافی کی ٹرے لے آیا۔ٹرے میں مختلف قسم کے مگ تھے،کوئی مگ خوبصورت تھا،کوئی قیمتی تھا،کوئی لمبا تھا اور کوئی چھوٹا تھا اور ان میں ایک مگ بدصورت اور ٹوٹا ہو ا بھی تھا۔نوکر ٹرے ایک ایک صاحب کے پاس لے جارہا تھا اور وہ اپنی مرضی کا مگ اٹھا لیتا تھا۔یہ ٹرے جب فوٹو گرافر کے پاس پہنچی تو اس نے بد صورت ترین مگ اٹھالیا۔لمبا سپ لیا اور سر شاری کے عالم میں بولا ’’سر آپ کی کافی بہت شاندار ہے ‘ ‘ جبکہ دوسرے لوگ مگ ہاتھ میں اٹھا کر چپ چاپ ایک دوسرے کی شکلیں دیکھنے لگے۔پروفیسر نے گفتگو روک کر فوٹو گرافر سے پوچھا ’’ٹرے میں ہر قسم کامگ تھا،ٹرے میں لمبے مگ بھی تھے،شوخ رنگ والے بھی تھے اورقیمتی بھی تھے لیکن تم نے ان میں سے بدصورت اور ٹوٹا ہوا مگ کیوں پسند کیا؟‘‘ فوٹو گرافر نے مسکر ا کر پروفیسر کی طرف دیکھا اوربولا ’’سر لیکن کافی تو سب میں ایک جیسی تھی‘‘۔ پروفیسر کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی۔فوٹو گرافر نے اپنے مگ کی طرف اشارہ کیا اور اس کے بعد ڈاکٹر صاحب کی طرف اشارہ کیا۔ڈاکٹر صاحب کے ہاتھ میں سب سے شاندار مگ تھا۔اس نے اس کے بعد ملک صاحب،مہر صاحب اور چودھری صاحب کے مگوں کی طرف اشارہ کیا۔ان سب کے مگ بھی شوخ،خوبصورت اورقیمتی تھے۔ اور اس کے بعد اس نے پروفیسر صاحب کے مگ طرف اشارہ کیا اور بولا ’’جناب ہم سب کے مگ مختلف ہیں لیکن ان میں ایک چیز کامن (common) ہے اور وہ چیز کافی ہے‘‘۔ وہ رکا اور اس کے بعد بولا ’’اگر ہم مگوں میں سے کافی نکال دیں تو یہ تمام مگ بے معنی ہو جائیں گے،یہ مگ کتنا ہی خوبصورت،قیمتی اورشاندار کیوں نہ ہو،ہم اسے اٹھا نا پسند نہیں کریں گے‘‘۔وہ رکا اور دوبار ہ بولا ’’ہم نے جب کافی ہی پینی ہے تو پھر مگ کا سائز،رنگ اور برانڈ کی کیا حیثیت ہے۔ چنانچہ میں نے وہ مگ اٹھا لیا جس کی طرف ان میں سے کوئی شخص ہاتھ نہیں بڑھا رہا تھا‘‘۔وہ خاموش ہوگیا۔پروفیسر نے قہقہہ لگا یا اور تمام لوگوں کو مخاطب کر کے بولا ’’تم سب کا یہی مسئلہ ہے،تم زندگی میں ’’بیسٹ ون‘‘ کی تلاش میں رہتے ہو،تم سب کو شہر کی خوبصورت خاتون چاہئے،تمہیں قیمتی ترین گاڑی چاہئے،تمہارا بینک بیلنس بھی ’’سیون ڈیجٹ‘‘ میں ہونا چاہئے،تمہارا گھر بھی شاندار ہونا چاہئے اور تمہیںسٹیٹس،اختیار اور عزت میں بھی منفرد ہونا چاہئے چنانچہ تم زندگی کی ٹرے سے ہمیشہ بیسٹ مگ اٹھاتے ہو اور یہ بھول جاتے ہو تم یہ مگ اٹھا کیوں رہے ہو کیونکہ جب مگ ہاتھ میں آتا ہے اور تمہیں لذت محسوس نہیں ہوتی تو تم حیرانی سے دائیں بائیں دیکھتے اور تمہیں زندگی بے کیف سی محسوس ہونے لگتی ہے‘‘۔ پروفیسر صاحب نے فوٹو گرافر کی طرف دیکھا اوربولے ’’لیکن یہ شخص زندگی کو سمجھ گیا ہے،یہ زندگی کے ریپر،زندگی کے لیبل اورشوخ وشنگ رنگوں کی طرف نہیں جاتا،یہ مگ کے اندر موجود زندگی کی لذت کو محسوس کرتا ہے۔ لہٰذا اس کے پاس کچھ بھی نہیں لیکن یہ اس کے باوجود خوش بھی ہے اور مطمئن بھی‘‘۔
میں نے یہ واقعہ بر سوں پہلے سیلف ہیلپ سیریز کی کسی کتاب میں پڑھا تھا اور یہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے میرے ذہن کی دیواروں سے چپک گیا اور میں نے اس کے بعد جب بھی کوئی مگ اٹھایا توکافی کی خوشبو،جھاگ اور اس سے اٹھتی ہوئی مسرت کو دیکھ کر اٹھایا۔اس کے رنگ روغن اور سائز پرتوجہ نہیں دی۔ہماری زندگی بے شمار مگوں میں تقسیم ہوتی ہے۔ہمارے مکان ایک مگ ہیں،ہمارے دفتر،ہماری جابز،ہماری گاڑیاں،ہمارے سماجی تعلقات، ہمارے معاشرتی مرتبے اور ہمارے بیوی اور بچے یہ بھی مگ ہیں۔ اور ہم لوگ اکثر اوقات مگوں کا رنگ روغن،قد کا ٹھ،قیمت اور معیار دیکھ کر انہیں پسندیا ناپسند کرتے ہیں۔ہم میں سے کوئی شخص ان مگوں کے اندر جھانک کر نہیں دیکھتا۔ہم میں سے کوئی نہیں دیکھتا ان مگوں کے اندر کافی بھی ہے یا یہ خالی ہیں۔ اور اگر کافی ہے تو اس کی مقدار کتنی ہے،اس کا ذائقہ کیسا ہے اور یہ بنی کیسی ہے ؟ خوشی ہمارے کپ،ہمارے مگ کی کافی ہوتی ہے اور ہم اس خوشی کیلئے مگوں کے درمیان ٹھڈے کھاتے ہیں اور ہم مگوں اور کپوں کے درمیان ٹھڈے کھاتے ہوئے ہمیشہ خوشی کے عنصر کو بھول جاتے ہیں۔ہمیں بڑی گاڑی چاہئے۔ضرور لینی چاہئے لیکن کیا یہ گاڑی ہمیں خوشی بھی دے گی،ہم نے یہ کبھی نہیں سوچا،ہمیں اگر بڑی گاڑی کے بعد خوشی ملتی ہے تو ہمیں یہ گاڑی ضرور خریدینی چاہئے۔اسی طرح ہمارا سوشل سرکل وسیع،شاندار اور مضبوط ہونا چاہئے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ سوشل سرکل ہمیں خوشی دے رہا ہے ؟ اگر ہاں تو ہمیں اس سرکل کو مزید سے مزید پھیلانا چاہئے اور اگرہم شاندار،طاقتور اور مضبوط لوگوں کے درمیان بیٹھ کر بھی اداس،پریشان اور کنفیوژہیں تو پھر ہمیں اس سرکل سے فوراً نکل جانا چاہئے۔ اور اگر ہمارا کام،ہماری جاب اورہمارا بزنس بھی ہمیں خوشی اور اطمینان نہیں دے رہا تو پھر ہمارا سیون ڈیجٹ اکائونٹ،ہماری فیکٹریاں اور ہماری ترقیاں بھی بے معنی ہیں۔ لہٰذا ہمیں یہ کپ بھی واپس ٹرے میں رکھ دیناچاہئے۔ہم لوگ اگر زندگی میں خوشی دیکھ کر فیصلے کریں تو ہمار ا ہر مگ ہمیں مسرت اوراطمینان دے گا لیکن اگر ہم مگوں کا رنگ،روغن،معیار،برانڈ اور قیمت دیکھ کر فیصلہ کرتے ہیں تو زندگی کا ہر مگ ہمیں پہلے سے کہیں زیادہ اداس اور پریشان کر جاتا ہے۔پروفیسر کا فوٹو گرافر شاگرد، ان کے تمام کامیاب شاگردوں کے مقابلے میں زیادہ سمجھ دار تھا۔وہ زندگی کی سب سے بڑی حقیقت کو سمجھ گیا تھا اور یہ ہمیشہ کافی دیکھ کر مگ اٹھاتا تھا، مگ کی شکل دیکھ کر نہیں۔ چنانچہ یہ کچھ نہ پا کر بھی خوش تھا جبکہ دوسرے لوگوں نے زندگی کے خوبصورت ترین مگ اٹھا رکھے تھے، مگر سب کچھ حاصل کر کے بھی اداس تھے۔

 

کاپی رائٹ © تمام جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ دارالعمل چشتیہ، پاکستان  -- ۲۰۱۴



Subscribe for Updates

Name:

Email: